تارکین وطن اور ان کے خوابوں کو نگلنے والا بحیرہ روم
3 جنوری 2019
گزشتہ کئی برسوں سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہوئے۔ گزشتہ برس بھی مختلف ممالک کے کم از کم 2262 مہاجرین یورپ پہنچنے کا خواب لیے اس سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق یورپ پہنچنے کی کوشش میں گزشتہ برس کم از کم 2262 مہاجرین بحیرہ روم کے پانیوں میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ سن 2017 کے مقابلے میں یہ ہلاکتیں کم ہیں۔ اس سال ہلاک یا لاپتہ ہو جانے والے مہاجرین کی تعداد 3139 تھی۔ تاہم ان جان لیوا حادثات کے باوجود بھی تارکین وطن کی جانب سے کشتیوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوششیں جاری ہیں۔ سن 2018 میں مجموعی طور پر دنیا کے مختلف ممالک سے ایک لاکھ تیرہ ہزار 482 مہاجرین یورپ کے مختلف ممالک تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
یواین ایچ سی آر کی ترجمان سیلینی شمِٹ کا پیرس میں نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تارکین وطن کی اب پسندیدہ ترین منزل یورپ کا دروازہ سمجھا جانے والا ملک اسپین ہے۔ گزشتہ برس شمالی افریقہ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے پچپن ہزار سے زائد تارکین وطن اس ملک پہنچے۔
دوسری جانب اٹلی کی نئی حکومت نے مہاجرین کے خلاف انتہائی سخت اقدامات اٹھائے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سن 2017 کے مقابلے میں گزشتہ برس اطالوی سرزمین تک پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد تئیس ہزار سے کچھ زائد رہی۔ سن 2017 میں لیبیا کے راستے اٹلی پہنچنے والے غیرقانونی تارکین وطن یہ تعداد ایک لاکھ انیس ہزار سے بھی زائد تھی۔
جاری ہونے والی اس تازہ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر سن 2015 کے مقابلے میں یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے۔ گزشتہ برس یورپ پہنچنے والے مہاجرین کے سب سے بڑے گروپ کا تعلق افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔ ان کی تعداد تقریبا تیرہ ہزار رہی۔ دوسرے نمبر پر مراکش آتا ہے، جس کےبارہ ہزار سات سو شہری غیرقانونی طریقے سے یورپ پہنچے۔ ان کے بعد بالترتیب مالی، شام، افغانستان اور عراق آتے ہیں۔
ا ا / ع ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)
دریائے ایورو، مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ
ترکی اور یونان کے درمیان دریائے ایورو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں مہاجرین اس دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ماریانہ کراکولاکی نے الیگزندرو پولی میں مہاجرین کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
خطرناک گزرگاہ
دریائے ایورو ترکی اور یونان کے درمیان وہ خطرناک گزرگاہ ہے جسے برسوں سے ہزارہا تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کی خواہش میں عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اس حوالے سے یہ بدنام ترین گزرگاہ بھی ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
رواں برس اب تک ترک یونان سرحد پر اس دریا سے انتیس افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والے مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے ایک سرد خانہ عطیے میں دیا ہے۔ اس مردہ خانے میں فی الحال پندرہ لاشیں موجود ہیں۔ دریا سے ملنے والی آخری لاش ایک پندرہ سالہ لڑکے کی تھی۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مرنے والوں کی تلاش
دریائے ایورو کے علاقے میں گشت کرنے والی انتظامیہ کی ٹیمیں یا پھر شکاری اور مچھیرے ان لاشوں کو دریافت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے، سب سے پہلے پولیس آ کر تفتیش کرتی ہے اور تصاویر بناتی ہے۔ پھر اس لاش کو مردہ خانے لے جایا جاتا ہے جہاں طبی افسر پاؤلوس پاؤلیدیس اس سے ملنے والی باقیات اور ڈی این اے کی جانچ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت کا سبب
پاؤلوس پاؤلیدیس کا کہنا ہے کہ مہاجرین بنیادی طور پر ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ پاؤلیدیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ستر فیصد ہلاکتوں کا سبب پانی میں رہنے کے سبب جسمانی درجہ حرارت کا معمول سے نیچے ہو جانا تھا۔ پاؤلیدیس کے مطابق حال ہی میں ٹرینوں اور بسوں کے نیچے کچلے جانے سے بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ذاتی اشیا
پاؤلوس پاؤلیدیس مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی ذاتی نوعیت کی اشیا کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ لاش کی شناخت میں مدد مل سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مشکل مگر لازمی فرض منصبی
مردہ مہاجرین سے ملنے والی نجی استعمال کی چیزوں کو پیک کرنا ایک بہت تکلیف دہ کام ہے۔ پاؤلوس کہتے ہیں کہ دریا سے ملنے والی ذاتی اشیا زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پانی خراب نہیں کر سکتا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاء دھات کی ہوتی ہیں جیسے انگوٹھیاں۔ گلے کے ہار اور بریسلٹ وغیرہ۔ کپڑے اور دستاویزات مثلاﹰ پاسپورٹ وغیرہ پانی میں تلف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور مذہب
پاؤلوس کے بقول ایسی اشیا بھی دریائے ایورو سے ملتی ہیں جو مرنے والے کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے اور رجوع کرنے کی صورت میں اُس کے خاندان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی جائے آرام
اگر کسی مرنے والے مہاجر کی شناخت ہو جائے تو اس کی لاش اس کے لواحقین کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یونانی حکام ان لاشوں کی آخری رسوم اُن کے مذہب کے مطابق ادا کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔