تارکین وطن، ایک اطالوی گاؤں کی معیشت کے معمار
6 جولائی 2011چار برس قبل افغانستان سے اطالوی گاؤں Riace آنے والے اسد اللہ احمد زئی کہتے ہیں:’’اس گاؤں کے لوگوں کا دل بہت کشادہ ہے۔ یہ ایک خاندان کی طرح ہیں۔‘‘ احمد زئی افغانستان سے برآمد کیے گئے بیگز اور جیولری اپنے اس نئے رہائشی گاؤں میں فروخت کرتے ہیں، جس کی آبادی 1800 نفوس پر مشتمل ہے۔
احمد زئی، ان کے دوبچے اور بیوی ریاس میں رہائش پذیر 200 تارک وطن مہاجرین میں شامل ہیں۔ ان مہاجرین کا تعلق بلقان کی ریاستوں کے علاوہ، اریٹیریا اور عراق سے بھی ہے۔ لیبیا سے 130 مہاجرین بھی بہت جلد یہاں پہنچنے والے ہیں۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ریاس کے انعام یافتہ میئر ڈومینیکو لوکانو ان مہاجرین کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’یہ لوگ جنگ سے دامن بچا کر آئے ہیں، انہوں نے تکلیفیں سہی ہیں، انہوں نے مشکل حالات دیکھے ہیں۔‘‘
جنوبی اٹلی کے دیگر بہت سے قصبوں کی طرح ریاس سے بھی بڑی تعداد میں رہائشی بہتر مستقبل کی تلاش میں امریکہ، ارجنٹائن یا اٹلی ہی کے زیادہ ترقی یافتہ شمالی شہروں کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ قصبے انسانوں سے خالی لگتے تھے۔
بحیرہ روم کے کنارے واقع اور دلکش نظاروں کے حامل اس اطالوی گاؤں میں اب پتھر سے بنے درجنوں گھروں کی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے، جہاں مہاجرین کو بسایا جائے گا۔
اس قصبے کے ان نئے رہائشیوں کی بدولت یہاں کے کاروبار اب پھل پھول رہے ہیں۔ مہاجرین کے علاوہ مقامی باشندوں کی مالی حالت بھی بہتر ہو رہی ہے اور نتیجتاﹰ اس قصبے کی معیشت میں بہتری کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس قصبے کے بزرگ اور پنشن پر گزارہ کرنے والے مقامی لوگ مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ 87 سالہ نکولا کہتے ہیں:’’ریاس میں ہمیشہ سے مہمان نوازی کی روایت موجود رہی ہے۔‘‘
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: امجد علی