1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

تارکین وطن جرمن بیوروکریسی پر برہم کیوں؟

4 اگست 2024

تارکین وطن کو شکایت ہے کہ جرمن شہریت کے حصول کی درخواستوں پر حکام کی جانب سے انہیں بر وقت جوابات موصول نہیں ہو رہے۔

اب سوشل میڈیا پر ایسے کئی گروپ ہیں، جہاں ہنر مند تارکین وطن جرمن بیوروکریسی پر برہمی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں
اب سوشل میڈیا پر ایسے کئی گروپ ہیں، جہاں ہنر مند تارکین وطن جرمن بیوروکریسی پر برہمی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیںتصویر: Sean Gallup/Getty Images

ماریا زدنے پرائیانیٹس جب روس سے جرمنی پہنچیں، تو انہیں یہ ملک بہت پسند آیا۔ ماریا ایک سافٹ ویئر ڈویلپر ہیں، جو ایک دہائی پہلے جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا آئی تھیں اور یہاں موجود آزادانہ ماحول، پبلک سروس کا معیار اور تعلیم کے مواقع ان کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھے۔

 لیکن اب وہ کہتی ہیں کہ چار سال برلن میں جرمن بیوروکریسی سے نبرد آزما ہونے کے بعد انہیں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ایک ''دوسرے درجے کی شہری‘‘ ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران انہوں نے اپنے تجربات کا حال بیان کرتے ہوئے کہا، ''جب میں جرمنی آئی تھی تو میرا یہاں زندگی گزارنے کا تصور بہت سادہ تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہاں انصاف ہوتا ہے۔ مجھے توقع تھی کہ یہاں ریاست سب کے ساتھ مساوی سلوک کرتی ہےلیکن اب اس تجربے کے بعد مجھے ایسا نہیں لگتا۔‘‘

ماریا بتاتی ہیں کہ جرمنی میں شروع کے چند سالوں میں انہوں نے یہاں کے معاشرے میں ضم ہونے کی  بھر پور کوشش کی تھی۔ انہوں نے جتنا جلدی ہو سکا جرمن زبان سیکھی، ایک ایسے جدید شعبے میں ملازمت اختیار کی جہاں افرادی قوت کی ضرورت تھی اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا  سے برلن منتقل ہو کر وہاں رہائش بھی اختیار کر لی۔

سن 2020 میں انہوں نے 'نیچرلائزیشن‘ یعنی جرمن شہریت حاصل کرنے کے لیے برلن کے ضلع پانکوف میں متعلقہ سرکاری محکمے میں اپنی دستاویزات جمع کرائیں۔ اور پھر انہیں کئی سال تک اپنی درخواست پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ انہوں نے متعلقہ دفتر کو متعدد ای میلز بھی بھیجیں لیکن ان کا بھی انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔

ماریا زدنے پرائیانیٹس ایک سافٹ ویئر ڈویلپر ہیں، جو ایک دہائی پہلے جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا آئی تھیںتصویر: Ben Knight/DW

بالآخر جب انہوں نے ایک وکیل سے رجوع کیا تو انہوں نے ماریا کو مشورہ دیا کہ وہ پانکوف میں متعلقہ حکام کے خلاف کورٹ میں مقدمہ دائر کریں۔ ماریا نے اس مشورے پر عمل درآمد تو نہیں کیا لیکن وہ بتاتی ہیں کہ 2022ء میں اپنے کیس کی جانب حکام کی توجہ مبذول کرانے کی امید میں انہیں جو بھی متعلقہ سرکاری نمبر ملتا انہوں نے اس پر فیکس بھیجنا شروع کردیے۔

 بالآخر ایک فیکس کے جواب میں ان سے مزید دستاویزات مانگی گئیں۔ ماریا نے وہ دستاویزات بھیج تو دیں، لیکن اس کے بعد سے اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

ان کا کہنا ہے، ''شہریت لینے سے متعلق میرا خیال تھا کہ مجھے اپنے حصے کا کام کرنا ہو گا، زبان سیکھنی ہوگی اور معاشرے کا حصہ بننا ہو گا اور کچھ عرصے بعد مجھے شہریت مل جائے گی۔ میں نے یہ سب کچھ کر لیا، لیکن بس شہریت نہیں دی جا رہی۔‘‘

بروقت کارروائی نہ کرنے کا مقدمہ واحد حل؟

جرمنی میں صرف ماریا ہی ایسا نہیں سوچتیں۔ اب سوشل میڈیا پر ایسے کئی گروپ ہیں، جہاں ہنر مند تارکین وطن جرمن بیوروکریسی پر برہمی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

جون کے اواخر میں جرمنی میں ایک احتجاج بھی ہوا تھا، جس میں مظاہرین نے شہریت کی درخواستوں پر ''منصفانہ اور شفاف‘‘ طریقے سے کام کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ان میں سے متعدد کا اب یہ بھی خیال ہے ان کی شہریت کی درخواست پر پیش رفت کا واحد طریقہ امیگریشن حکام کے خلاف بروقت کارروائی نہ کرنے کے الزام پر مقدکے کے لیے درخواست دائر  کرنا ہے۔ یہ مقدمہ اس صورت میں دائر کیا جا سکتا ہے اگر حکام تمام ضروری دستاویزات ملنے کے چھ مہینے بعد تک بھی کسی درخواست پر جواب نہ دیں۔

’جرمن بیوروکریسی بالکل بھی جرمن نہیں‘

اسی نوعیت کا مقدمہ جرمنی میں مقیم ایک پاکستانی نے بھی دائر کیا ہے، جنہوں نے ڈی ڈبلیو سے درخواست کی کہ انہیں فرضی نام دے کر متعارف کرایا جائے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ بصورت دیگر امیگریشن حکام ان کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔

عمران احمد (فرضی نام)  کا کہنا تھا، ''مجھے یہ اعتماد نہیں کے حکام منصفانہ رویہ رکھیں گے اور مجھے فکر ہے کہ مجھے اپنی کہانی سنانے کی سزا دی جائے گی۔‘‘

عمران ایک سافٹ ویئر انجینئیر ہیں جنہوں نے ماسٹرز جرمنی سے ہی کیا ہے۔ وہ یہاں اپنی بیوی اور ایک بیٹے کے ساتھ مقیم ہیں۔

جرمن پاسپورٹ کی تصویرتصویر: Winfried Rothermel/picture alliance

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے شہریت کے حصول کے لیے درخواست تین سال پہلے جمع کرائی تھی، جب انہیں جرمنی میں رہتے ہوئے آٹھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ درخواست جمع کرنے کے اٹھارہ مہینے تک انہیں حکام کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔ پھر ان سے پہلے ہی جمع کرائی گئی دستاویزات کی نئی کاپیاں طلب کی گئیں اور تب سے اب تک اس معاملے میں مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

عمران کہتے ہیں، ''میں ہمیشہ سے جرمنی آنا چاہتا تھا۔‘‘ وقت کی پابندی، صاف اور سیدھی بات کرنا اور منظم ہونے جیسی جرمن باشندوں کی عادات شمار کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''لیکن جرمن بیوروکریسی بالکل بھی جرمن نہیں ہے۔ جب بھی آپ کا پالا جرمن بیوروکریسی سے پڑتا ہے تو لگتا ہے کہ جیسے اس کا تعلق کسی تھرڈ ورلڈ کنٹری سے ہے۔‘‘

جنوری میں عمران نے برلن کی ریاستی پارلیمان کے متعدد ارکان سے رابطہ کر کہ پوچھا تھا کہ جنوری میں شہریت کے قوانین میں اصلاحات کے بعد سے شہریت دینے کے امور کے زمہ دار میونسپل حکام سے ایک مرکزی آفس تک منتقلی کے بعد شہریت کی درخواستوں پر کام کا طریقہ کار کیا ہے۔

انہیں صرف گرین پارٹی کی لاؤرا نوئےگےباؤر کی جانب سے جواب موصول ہوا۔ لاؤرا نوئےگےباؤر کی پارٹی نے اس سلسلے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک درخواست جمع کرائی تھی، جس کے بعد انہیں بتایا گیا کہ امیگریشن حکام کے لیے درخواستوں پر ان کی جمع کرانے کی تاریخوں کے مطابق ان پر کام کرنا ''تقریباﹰ ناممکن‘‘ ہے۔

کیا تارکین وطن کو جرمنی آتے ہی ملازمت مل جاتی ہے؟

00:47

This browser does not support the video element.

’چالیس ہزار پرانی درخواستوں کا پہاڑ‘

برلن میں امیگریشن اتھارٹی ایل ای اے کے ایک ترجمان کے کا کہنا ہے کہ انہیں لوگوں کا غصہ اور پریشانی سمجھ آتی ہے لیکن لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ جنوری کی پیش رفت کے بعد ان کے ادارے کے پاس اب ''40,000 پرانی درخواستوں کا ایک پہاڑ‘‘ ہے، جس پر انہیں کام کرنا ہے۔ ان کے مطابق ان میں سب سے پرانی درخواست 2005ء میں جمع کرائی گئی تھی۔

برلن کی وزیر داخلہ اِیریس اشپرانگر نے اس جرمن ریاست میں شہریت ملنے والے افراد کی تعداد میں دو گنا اضافے کے بعد اسے سالانہ 20,000 تک بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ایل ای اے کا کہنا ہے کہ وہ رواں سال اس ہدف کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہےلیکن 40,000 پرانی درخواستوں کا مسئلہ اب بھی وہیں کا وہیں ہے۔

ایل ای اے کے ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو ای میل کیے گئے اپنے جواب میں کہا، ''یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔‘‘

(بین نائٹ) م ا ⁄ ش ر

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں