تارکین وطن کا انتخابی رجحان
10 ستمبر 2013![](https://static.dw.com/image/16795784_800.webp)
اعداد و شمار کے وفاقی جرمن ادارے کے 2011 ء کے اندازوں کے مطابق جرمنی میں 16 ملین تارکین وطن آباد ہیں۔ ان باشندوں نے خود اپنا آبائی وطن ترک کر کے جرمنی آنے کا فیصلہ کیا یا پھر ان کے والدین یا پھر اُن کے بھی والدین جرمنی آکر آباد ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جنہیں ابھی ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہے یا ان کے پاس جرمن شہریت نہیں ہے۔ جرمنی میں عام انتخابات میں حق رائے دہی وہی استعمال کر سکتا ہے جس کے پاس جرمن پاسپورٹ ہو۔ اس ضمن میں استثناء محض یورپی شہریوں کو حاصل ہے۔ یہ شہری یورپی اور مقامی الیکشن میں ووٹ ڈال سکتے ہیں تاہم پارلیمانی انتخابات میں حق رائے دہی کا حق انہیں بھی حاصل نہیں۔
اعداد و شمار کے وفاقی جرمن ادارے کے اندازوں کے مطابق ستمبر کے پارلیمانی انتخابات میں جرمنی میں آباد تارکین وطن کی کُل تعداد کا محض ایک تہائی حصہ ووٹ دینے کا اہل ہوگا۔ اسی ادارے کے مطابق جرمنی میں تارکین وطن کی طرف سے جرمن شہریت اختیار کرنے کے رجحان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ 2011 ء میں ایک لاکھ تارکین وطن نے جرمن شہریت حاصل کی۔
پارٹی کے چناؤ کا دار ومدار ووٹروں کے آبائی ملکوں سے
2012 ء میں وفاقی جرمن دفتر برائے تارکین وطن و پناہ گزین نے ایک تجزیاتی رپورٹ پر مشتمل اعداد و شمار شائع کیے تھے۔ اُن کے مطابق غیر ملکی پس منظر کے حامل باشندے بہت کم ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔ 2009 ء کے پارلیمانی انتخابات میں محض 72.3 فیصد تارکین وطن نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا جبکہ جرمن باشندوں میں ووٹ دینے کی شرح 81.5 فیصد تھی۔ اس سلسلے میں استثناء کام کرنے والے افراد کے گروپوں کو حاصل ہے، ان میں شامل باشندوں کا 80 فیصد ووٹ کا اپنا حق استعمال کرتا ہے جبکہ تارکین وطن پس منظر سے تعلق نہ رکھنے والے 81.5 فیصد اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔
خواں ڈیاس ایک امریکی ہے اور اس کے والدین کا تعلق کیوبا سے ہے۔ ان کا خاندان فیدل کاسترو کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی فرار ہو کر امریکی شہر میامی جا بسا تھا۔ خواں اسے ایک ’پیچیدہ تشخص‘ قرار دیتا ہے۔ جرمن دار الحکومت برلن کی محبت اُسے یہاں کھینچ لائی اور وہ اس شہر کے کثیرالثقافتی رنگ اور رمق دمق کا اسیر ہو گیا۔ سات سال قبل خواں نے جرمن شہریت حاصل کر لی۔ اُس کا کہنا ہے، میں نے جرمن پاسپورٹ کی درخواست اس لیے درج کی تھی کہ میں سیاسی عمل میں حصہ لینے کا حق حاصل کرنا چاہتا تھا، کون چانسلر بنے گا اور کون پارلیمان کی نشستوں پر بیٹھے گا، ان معاملات کے فیصلے میں میرا ہاتھ بھی ہونا چاہیے"۔ خواں اس امر پر مسرت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال سکتا ہے کیونکہ وہ ثالث کا کم کرتا ہے اور اس وجہ سے وہ اکثر بلقان کے خطے کا سفر کرتا ہے۔
انتخابی رجحان سے متعلق ایک سروے کے مطابق جو خواں کی طرح اپنا ووٹ ڈالتا ہے وہ زیادہ تر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی یا کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی سی ڈی یو کو ووٹ دیتا ہے۔ جرمنی کے ایک اقتصادی ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والی انگریڈ ٹوچی کا کہنا ہے کہ تارکین وطن باشندوں کی اکثریت ان دو بڑی سیاسی جماعتوں ہی کو ووٹ دیتی ہے۔ سماجی امور کی ماہر ٹوچی نے غیر ملکی اور تارکین وطن گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کے رجحان کے موضوع پر ریسرچ کی ہے۔ ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ 50 اور 60 کے عشرے میں جنوبی یورپ، یوگوسلاویا اور ترکی سے مہمان کار کنوں کے طور پر جرمنی آنے والوں کی اکثریت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کو ووٹ دیتی ہے جبکہ سرد جنگ کے بعد سابقہ سوویت یونین سے جرمنی آنے والے ایسے افراد جن کے آباؤ اجداد کا تعلق جرمنی سے رہا ہو، میں کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو اور کرسچن سوشل یونین سی ایس یو کو ووٹ دینے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔
ترک وطن کا تجربہ اہمیت کا حامل
سماجی امور کی ماہر انگریڈ ٹوچی کا کہنا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ وفاداری کا گہرا تعلق ووٹروں کے تارکین وطن پس منظر سے بھی ہے۔ اس لیے سرد جنگ کے بعد جرمنی آنے والے تارکین وطن کے لیے کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے انضمام کی پالیسیوں پر خاص زور دیا۔ دوسری جانب سی ڈی یو کے چند سیاست دانوں کا مہمان کارکنوں کی طرف رویہ کچھ زیادہ دوستانہ نہیں رہا ہے۔ تاہم ٹوچی کا کہنا ہے کہ اس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
ناؤمی/ کونراڈ/ کشور مصطفیٰ/ عدنان اسحاق