1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہفرانس

تارکین وطن کا راستہ روکنے کے لیے فرانس کے سخت اقدامات

29 ستمبر 2021

حالیہ برسوں کے دوران فرانس میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں حکومت پر دباؤ ڈالے ہوئے ہیں کہ مہاجرین کو روکنے کے لیے انتہائی سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔

Frankreich Polizei räumt Migranten-Zeltlager in Paris
مارین لے پین کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیرملکیوں کی بجائے فرانسیسی شہریوں کی سماجی رہائشوں، ملازمتوں اور سماجی تحفظ کے فوائد تک رسائی کو ترجیح دی جائے گیتصویر: Imago/Le Pictorium/J. Mattiax

منگل کے روز حکومتی ترجمان گیبریل اتل نے اعلان کیا ہے کہ پیرس حکومت کی جانب سے الجزائر ، مراکش اور تیونس کے عوام کے لیے مختص ویزوں کی تعداد انتہائی کم کر دی گئی ہے۔ ان تینوں ملکوں نے اپنے ایسے شہریوں کو واپس قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، جنہیں فرانس نے غیرقانونی مہاجرین قرار دیتے ہوئے ملک سے بے دخل کر دیا تھا۔

جاری ہونے والے بیان کے مطابق الجزائر  اور مراکش کے لیے مختص ویزوں کی تعداد نصف کر دی گئی ہے جبکہ تیونس کے لیت مقرر تقریبا ایک تہائی ویزے ختم کیے گئے ہیں۔

فرانس نے ویزے کم کیوں کیے؟

جب فرانسیسی عدالت کسی شخص کے ویزے کی درخواست مسترد کرتی ہے تو حکام کو لازمی طور پر اس کے آبائی ملک سے ایک خصوصی سفری پاس چاہیے ہوتا ہے تاکہ متاثرہ شخص کو زبردستی ملک بدر کیا جا سکے۔ حکومتی ترجمان گیبریل اتل کے مطابق الجزائر، مراکش اور تیونس نے ایسے سفری پاس فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

دوسری جانب کورونا وباء کی وجہ سے بھی ایسے ملک بدریوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ فرانس نے غیرقانونی مہاجرین کے راستے بند کرنے کے لیے سن دو ہزار اٹھارہ میں سخت قوانین متعارف کروائے گئے تھے اور اس کے بعد سے کئی ممالک کے ساتھ پیرس حکومت نے سفارتی سطح پر مذاکرات جاری کر رکھے ہیں۔

نیوز ایجنسی اے پی نے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فرانسیسی صدر خاص طور پر شمالی افریقی ممالک کے ان مہاجرین کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں، جن پر انتہاپسندی میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

شمالی افریقی ممالک نے کیا جواب دیا؟

مراکش کے وزیر خارجہ ناصر بوریطہ نے ان فرانسیسی اقدامات کو ''نا انصافی‘‘ قرار دیا ہے، ''یہ فیصلہ فرانس کی طرف سے یکطرفہ طور پر کیا گیا ہے۔ مراکش اس کا بغور جائزہ لے گا۔ لیکن اس کے جواز  میں دی گئیں وجوہات کے بارے میں وضاحت اور بات چیت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ حقیقت کے برعکس ہیں۔‘‘

تصویر: Michel Spingler/AP Photo/picture alliance

دوسری جانب تیونس کے صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں فرانس کے اس اقدام پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ تیونس کے مطابق ان کا شمار تو ان ممالک میں ہوتا ہے، جو مہاجرین کے حوالے سے فرانس کے ساتھ قریبی تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا دباؤ

فرانس کی طرف سے ویزے کم کرنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں صدار ایمانویل ماکروں پر سخت امیگریشن پالیسیاں نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈالے ہوئے ہیں۔

فرانس میں اگلے سال کے صدارتی انتخابات کے دوران مہاجرین سے متعلق پالیسی انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ ماکروں کا مقابلہ ایک مرتبہ پھر مہاجرین اور اسلام مخالف انتہائی دائیں بازو کی لیڈر مارین لے پین سے ممکن ہے۔

پیر کے روز مارین لے پین نے فرانس 2 ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ برس اگر وہ صدر منتخب ہو گئی تو ایک ریفرنڈم کروایا جائے گا تاکہ فرانس میں داخل ہونے اور شہریت حاصل کرنے کے عمل کو سخت ترین بنایا جا سکے۔ مارین لے پین کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیرملکیوں کی بجائے فرانسیسی شہریوں کی سماجی رہائشوں، ملازمتوں اور سماجی تحفظ کے فوائد تک رسائی کو ترجیح دی جائے گی۔

سن دو ہزار سترہ میں لے پین صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے تک پہنچ گئی تھیں لیکن انہیں ماکروں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا ماکروں آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے۔

ا ا / ع ح (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں