'تارکین وطن کا ملک‘ بننے سے بچاؤ، ہنگری مزید کیا کرے گا؟
30 مئی 2018
ہنگری کی حکومت نے ’ تارکین وطن کا ملک‘ بننے سے خود کو بچانے کے لیے ایک نیا قانون متعارف کرانے اور آئین میں چند ترامیم کی تجویز پپیش کی ہے۔ مہاجرین کی قبولیت کے حوالے سے بھی پالیسی مزید سخت کی جائے گی۔
اشتہار
ہنگیرین پارلیمان میں پیش کیا جانے والا یہ مجوزہ قانون اگر منظور ہو جاتا ہے تو اس کی رُو سے غیر قانونی مہاجرت کو فروغ دینا اور اس میں سہولت فراہم کرنا جرم قرار دے دیا جائے گا اور اس کی سزا ایک سال تک کی جیل ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے ہنگری کی حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی’سٹاپ سوروس‘ نامی اس مہم کا ہدف بنیادی طور پر سماجی تنظیمیں ہیں۔ ان میں سے بعض کی مالی اعانت ہنگیرین امریکن سرمایہ کار جارج سوروس کی جانب سے کی جاتی ہے۔ اس امداد میں مہاجرین کے لیے قانونی اور دوسری معاونت شامل ہے۔
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کی مہاجرین مخالف حکومت کی نظر میں اس حوالے سے بدنام گروپ، ہیلسنکی کمیٹی برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ اس کی سرگرمیاں قانون کے مطابق ہیں۔ نیز یہ کہ ایک جمہوری ملک میں ایسا مجوزہ قانون قابل قبول نہیں ہے۔
گروپ کے مطابق،’’یہ مجوزہ قانونی بل ایسے افراد کو سزا کی دھمکی دیتا ہے، جو ہنگری میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے قانونی حد میں رہتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔‘‘
مہاجرین اور تارکین وطن کے حوالے سے ہنگری کی حکومت نے آئین میں جو ترامیم تجویز کی ہیں اُن کے مطابق ہنگری میں غیر ملکیوں کی آباد کاری ممکن نہیں ہو گی اور ملک میں سیاسی پناہ کے حصول کی اہلیت کی شرائط بھی مزید سخت کر دی جائیں گی۔
مثال کے طور پر اگر مہاجرین کسی ایسے ملک سے گزرتے ہوئے ہنگری میں داخل ہوئے ہیں، جہاں اُنہیں تشدد اور پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، تو وہ ہنگری میں پناہ کے حقدار نہیں ہوں گے۔
چونکہ ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے آنے والے بیشتر مہاجرین سربیا سے گزر کر ہنگری پہنچتے ہیں لہذٰا اُن کے لیے اس نئی شرط کو پورا کرنا مشکل ہو جائے گا۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین نے ہنگری سے یہ قانون سازی نہ کرنے کو کہا ہے۔
ہنگری نے گزشتہ برس کئی بار سوروس پر ’اندھا دھند یورپ کی طرف آنے والے پناہ گزینوں کی مدد‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے اُن کے خلاف مہم چلائی ہے۔ تاہم منگل مورخہ انتیس مئی کو پیرس میں اپنے ایک بیان میں جارج سوروس نے ایک بار پھر بوڈاپیسٹ حکومت کے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
ص ح/ اے پی
ہنگری میں جرمنی جانے کے منتظر مہاجرین
ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر پڑے ہوئے مہاجرین دو روز تک بے خبر رہے کہ آگے اُن پر کیا بیتے گی۔ ٹکٹ اُن کے پاس تھے لیکن سفر کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ جب اجازت ملی تو انہیں ایک کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
کھلے آسمان کے نیچے
بہت سے مہاجرین نے ایسٹرن ریلوے اسٹیشن کے سامنے واقع جگہ پر ہی رات کو ڈیرے لگا لیے۔ ان لمحات میں اُنہیں بالکل نہیں پتہ تھا کہ آگے کیا ہو گا، کہیں جانے کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں اور ملے گی بھی تو کب۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
’عارضی قیام کی جگہ‘
پولیس نے اس جگہ کو ’ٹرانزٹ زون‘ قرار دے دیا۔ یہ اور بات کہ ان حالات کو کسی صورت ٹرانزٹ کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ مہاجرین کو حکام کی طرف سے کافی دیر تک کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
آگے سفر کا انتظار
کئی ایک مہاجرین کو آگے مغربی یورپ کی جانب سفر کا انتظار کرتے کرتے دو روز ہو گئے ہیں۔ اُن کی الجھن بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج
قبل از دوپہر ریلوے اسٹیشن کے سامنے والی جگہ پر حالات قابو سے باہر ہوتے دکھائی دینے لگے۔ مہاجرین نے بلند آواز میں ہنگری کی پولیس کی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریلوے اسٹیشن پر تالے پڑے رہے
صورتِ حال پر قابو پانے اور مہاجرین کو ریلوے اسٹیشن سے باہر ہی رکھنے کے لیے مزید پولیس بھیجی جاتی رہی اور پولیس کی نفری میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
امید کی کرن
پھر اچانک مہاجرین کو ریلوے پلیٹ فارم تک جانے کی اجازت دے دی گئی۔ مہاجرین کو بتایا گیا کہ ایک ریل گاڑی اُنہیں آگے مغربی یورپ تک لے کر جائے گی۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریل پر چڑھنے کے لیے دھکم پیل
سینکڑوں مہاجرین نے ریلوے اسٹیشن کے مرکزی ہال پر ایک طرح سے دھاوا بول دیا۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح مغرب کو جانے والی ریل گاڑی پر سوار ہو جائے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
اور بالآخر سفر شروع ہوا
ریل پر جگہ پانے والے تمام مہاجرین کا خیال یہ تھا کہ اب بالآخر اُنہیں ہنگری سے نکلنے اور اپنی پسند کے کسی یورپی ملک میں جانے کا موقع مل رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کی خواہش تھی کہ وہ جرمنی جائیں۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
جو پیچھے رہ گئے
ریل گاڑی پر سبھی مہاجرین سوار نہ ہو سکے۔ جو بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر ہی پڑے رہ گئے، اُن کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ ان لوگوں کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ اگر وہ واقعی ریل پر چڑھنے میں کامیاب ہو جاتے تو کہاں پہنچ چکے ہوتے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریل گاڑی کہیں اور جا پہنچی
جمعرات کو قبل از دوپہر دراصل ہوا یہ تھا کہ بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہونے والی ریل گاڑی کو شہر سے نکلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد روک دیا گیا اور مہاجرین کو اترنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اُنہیں ہنگری کے ایک مہاجر کیمپ میں پہنچا دیا گیا تاکہ وہاں اُن کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جا سکے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
گہری بداعتمادی
بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر پڑے رہ جانے والے مہاجرین میں افغانستان کا شریفی بھی ہے، جس کے ساتھ اُس کی ایک سالہ بیٹی مہیبہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب اُسے ہنگری کے حکام پر کوئی اعتبار نہیں رہا۔