اطالوی وزیر داخلہ انجیلینو الفانو کا کہنا ہے کہ یورپی یونین شمالی افریقی ممالک سے بھی ترکی جیسا معاہدہ کرے تاکہ وہاں سے غیر قانونی طور پر اٹلی آنے والے تارکین وطن کو بھی واپس ان کے آبائی ملکوں میں بھیجا جا سکے۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق انجیلینو الفانو نے یہ بات برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔ مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اگرچہ تارکین وطن کی اکثریت ترکی سے یونان پہنچی تھی تاہم لیبیا اور شمالی افریقی ممالک سے بحیرہ روم عبور کر کے اٹلی پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد بھی کافی زیادہ رہی تھی۔
ترکی سے یونان اور پھر وہاں سے جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک تک پہنچنے کے راستے بند ہونے کے بعد تارکین وطن کے اٹلی پہنچنے کے رجحان میں ایک مرتبہ پھر تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران اٹلی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 85 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اطالوی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ایک مؤثر پالیسی اختیار کرتے ہوئے تارکین وطن کا اٹلی سے واپس بھیجا جانا نہایت ضروری ہے۔ الفانو کا کہنا تھا، ’’اگر پناہ گزینوں کی واپسی نہ ہوئی تو یُنکر کا ہجرت کے بارے میں ایجنڈا ناکام ہو جائے گا۔‘‘ الفانو کا اشارہ یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر کی جانب تھا جنہوں نے یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
یونان میں پاکستانی تارکین وطن: موقف اور مجبوریوں کی وضاحت
الفانو نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایسے تارکین وطن جن کے ملک بدر کیے جانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، انہیں کیمپوں میں قید رکھنے میں روم حکومت کو دشواری پیش آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’آخر ہم کتنے تارکین وطن کو رکھ سکتے ہیں۔ ہر سال مزید ہزاروں تارکین وطن رکھنے پڑ جاتے ہیں۔ انہیں اگر منظم طریقے سے واپس نہ بھیجا گیا تو پھر ہمیں باقاعدہ جیلیں بنانا پڑیں گی، بصورت دیگر ظاہر ہے کہ سارا نظام منہدم ہو جائے گا۔‘‘
گزشتہ برس کے دوران قریب ایک لاکھ 54 ہزار تارکین وطن بحیرہ روم عبور کر کے اٹلی پہنچے تھے جب کہ پندرہ ہزار پناہ گزینوں کو اٹلی اور شمالی افریقی ممالک کے باہمی تعاون سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ اطالوی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل صرف اسی صورت میں مزید مأثر ثابت ہو سکتا ہے جب یورپی یونین کی سطح پر شمالی افریقی ممالک سے بھی معاہدہ کیا جائے۔
اب تک اٹلی آنے والے زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق افریقی ممالک سے ہے لیکن الفانو کا کہنا ہے کہ شامی مہاجرین کی آمد بھی شروع ہو سکتی ہے۔ الفانو کے مطابق، ’’اگر شامی مہاجرین ترکی میں نہ رہنا چاہیں اور یورپ آنے کی ٹھان لیں تو وہ بھی لیبیا کا رخ کر سکتے ہیں۔ ہمارے مشاہدے میں ابھی تک ایسا نہیں ہو رہا لیکن ہم مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔