تارکین وطن کو بڑے پیمانے پر واپس ترکی بھیجنے کی کوشش
شمشیر حیدر6 مارچ 2016
یورپی یونین اور ترکی کے مابین تارکین وطن کے بحران پر اجلاس پیر سات مارچ کو برسلز میں ہو رہا ہے۔ یونین کی کوشش ہے کہ تارکین وطن کو بڑے پیمانے پر واپس ترکی ملک بدر کرنے کے منصوبے پر انقرہ حکومت کو قائل کر لیا جائے۔
اشتہار
اٹھائیس رکنی یورپی یونین یورپ میں جاری پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے کافی حد تک ترکی سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ یونین اور ترکی کے مابین ہونے والے کل کے سمٹ میں یورپی رہنماؤں کی کوشش ہے کہ مذاکرات کے دوران ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولُو اس بحران کو حل کرنے کے لیے نئے وعدے کر لیں۔
یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے سمٹ کے لیے تحریر کردہ دعوتی خط میں لکھا ہے کہ اس اجلاس کی کامیابی اس بات میں ہو گی کہ ترکی اس بات پر رضامند ہو جائے کہ معاشی وجوہات کی بنا پر ہجرت اختیار کرنے والے تارکین وطن کو بڑے پیمانے پر یونان سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔
یورپی رہنماؤں کی یہ کوشش بھی ہے کہ ترکی اپنے ساحلوں سے یونانی جزیروں کی جانب سفر کرنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے بھی مزید اقدامات کرے۔
سمٹ شروع ہونے سے پہلے ترکی اور یورپی یونین کے درمیان کچھ کشیدگی بھی دیکھی جا رہی ہے۔ انقرہ حکومت کی جانب سے حزب اختلاف کے ایک اخبار ’زمان‘ کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر یونین نے ترکی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ترکی یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے آزادیٴ صحافت کا احترام کرنا پڑے گا۔
افغان مہاجرین کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا
02:53
ترکی طویل عرصے سے یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ سمٹ کے دوران تارکین وطن کے بحران کے ساتھ ساتھ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت پر بھی مذاکرات ہو رہے ہیں۔
ٹسک کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے امدادی معاہدے پر پیش رفت تو ہوئی ہے لیکن ترکی ابھی بھی یورپ آنے والے تارکین وطن کی تعداد کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
یورپی کمیشن کی جانب سے سمٹ کے شرکاء کے لیے تیار کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق فروری کے مہینے میں معاشی بنیادوں پر ہجرت کرنے والے یومیہ دو ہزار افراد ترکی سے یونان پہنچ رہے تھے۔ شدید سردی اور خراب موسم کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ تعداد بہت زیادہ ہے، جس میں بہار کی آمد کے ساتھ اضافہ متوقع ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ چھبیس فروری کے روز یونان کی جانب سے 859 تارکین وطن کو واپس ترکی ملک بدر کرنے کی درخواست کی گئی تھی جو کہ انقرہ حکومت نے قبول کر لی تھی۔
اعداد و شمار کے مطابق ترکی سے یونان پہنچنے والے پناہ گزینوں میں تقریباﹰ نصف تعداد ان لوگوں کی ہے جو معاشی بنیادوں پر یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔ یورپی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افغانستان، پاکستان اور ایران سے ہے۔
یورپی کمیشن کی رپورٹ میں ترکی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ان ممالک کے ساتھ اپنے شہریوں کی ’فوری وطن واپسی‘ کے لیے مذاکرات کرے تاکہ یورپ سے ترکی واپس بھیجے جانے والے افراد کو ترکی سے بھی ملک بدر کر کے اپنے اپنے وطنوں کی جانب واپس بھیجا جا سکے۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘