تارکین وطن کو جرمن آئین کا احترام کرنا ہوگا، میرکل
7 اکتوبر 2010جرمنی میں چارملین مسلمان آباد ہیں اور یہاں شہریت اختیار کرنے والے مسلمانوں کو جرمن معاشرے میں انضمام کے حوالے سے مشکلات کا سامنا بھی ہے۔ اسی تناظر میں جرمنی کے مرکزی بینک کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ابھی حال ہی میں کہا تھا کہ مسلمان جرمن معاشرے میں ضم ہونے میں ناکام ہو چکے ہیں، اس متنازعہ بیان کے نتیجے میں انہیں اپنے عہدے کو خیرباد کہنا پڑا تھا۔
دوسری طرف جرمن صدر نے جرمنی کے اتحاد کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر عوام سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام بھی جرمنی کا حصہ بن چکا ہے۔ جرمن صدر کرسٹیان وولف نے یہ بھی کہا تھا کہ جرمنی میں بسنے والے تمام لوگوں کو مسلمانوں کے بہتر انضمام کے لئے مل کر کوشش کرنا ہو گا۔
جرمن ذارئع ابلاغ نے اسلام کے بارے میں وولف کے بیانات کو اہم کوریج دی، تاہم بدھ کو میرکل نے جرمن صدر کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جرمن صدر نے اپنی تقریر کے دوران جرمنی میں مسیحیت اور یہودیت کی تاریخی اہمیت پر زور دیا ہے۔
کرسچن ڈیموکریٹ میرکل نے کہا کہ اب یقینی طور پر جرمنی میں مسلمان بھی آباد ہیں، لیکن یہ امر بہرحال ضروری ہےکہ اسلام کی اقدار جرمن آئین سے متصادم نہ ہوں، ’جو یہاں کے ملکی آئین میں ہے وہ شریعیت میں نہیں ہے۔‘ جرمن چانسلر میرکل نے کہا کہ جرمنی کو ایسے پڑھے لکھے اسلامی سکالرز کی ضرورت ہے، جو جرمن معاشرے کو اچھی طرح جانتے ہوں۔
جرمنی میں مسلمانوں کے حوالے سے یہ بحث بالخصوص اس وقت طول پکڑ گئی ہے، جب میڈیا رپورٹوں کے مطابق یورپ اس وقت ممکنہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی زد میں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ممکنہ حملے مسلمان انتہا پسندوں کی طرف سے ہوں گے۔ اگرچہ جرمن حکام نے جرمنی میں ممکنہ دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے لیکن پھر بھی یہاں نہ صرف عوامی بلکہ سرکاری سطح پر اس حوالے سے کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: ندیم گِل