تارکین وطن کو سمندر سے بچایا تو بہت بڑے جرمانے: اطالوی حکومت
12 جون 2019
اطالوی حکومت نے تارکین وطن کو سمندر سے بچانے اور انہیں بلا اجازت ملکی بندرگاہوں پر لانے والی غیر سرکاری امدادی تنظیموں پر بھاری جرمانے عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ روم حکومت اب ایسی تنظیموں سے بڑے جرمانے طلب کر سکے گی۔
اشتہار
روم میں اطالوی حکومت کی طرف سے منگل گیارہ جون کو منظور کردہ ایک سرکاری حکم نامے کے مطابق تارکین وطن کی آمد کے مخالف عوامیت پسند سیاست دان ماتیو سالوینی کی قیادت میں ملکی وزارت داخلہ اب قانوناً ایسی غیر سرکاری امدادی تنظیموں سے 10 ہزار یورو سے لے کر 50 ہزار یورو (ساڑھے گیارہ ہزار سے لے کر ستاون ہزار امریکی ڈالر تک کے برابر) جرمانے کی رقوم کے مطالبے بھی کر سکے گی، جو کھلے سمندروں سے یورپ آنے کے خواہش مند غیر ملکی تارکین وطن کو بچا کر اطالوی بندرگاہوں تک لائیں گی۔
بحری جہاز اور کشتیاں بھی ضبط
اس کے علاوہ ایسی رضاکار ریسکیو تنظیمیں، جو اطالوی بندرگاہوں پر اپنے جہازوں کے ساتھ بلا اجازت لنگر انداز ہوں گی، انہیں یہ خطرہ بھی ہو گا کہ روم حکومت ان کے بحری جہازوں اور امدادی کشتیوں کو مستقل بنیادوں پر ضبط کر لے گی۔ اس حکم نامے کے مطابق یہ جرمانے کسی بھی متعلقہ بحری جہاز یا کشتی کے کپتان، اس کو چلانے والی غیر سرکاری تنظیم یا اس جہاز کی مالک کمپنی کو ادا کرنا ہوں گے۔
روم میں اس وقت بائیں بازو کی عوامیت پسند فائیو سٹار موومنٹ اور دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت لیگ پارٹی پر مشتمل ایک مخلوط حکومت قائم ہے۔ لیگ پارٹی کے سربراہ ماتیو سالوینی ہیں، جو وزیر داخلہ بھی ہیں۔ روم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ نیا مہاجرین مخالف سرکاری حکم نامہ زیادہ تر ماتیو سالوینی ہی کی سوچ کا نتیجہ ہے اور وہی اطالوی حکومت کی ان کوششوں کی قیادت بھی کر رہے ہیں کہ ملک میں تارکین وطن کی غیر قانونی آمد پر ہر حال میں قابو پایا جانا چاہیے۔
تاخیر سے جاری کیا گیا حکم نامہ
روم حکومت کی طرف سے اس حکم نامے کے اجراء کا پروگرام تو کافی پہلے بنایا گیا تھا لیکن اس میں اقوم متحدہ کے علاوہ خود اطالوی صدر کے دفتر کی طرف سے کی جانے والی شدید تنقید کی وجہ سے بھی کافی تاخیر ہو گئی تھی۔ لیکن پھر منگل گیارہ جون کے روز جب ملکی کابینہ نے اس سرکاری حکم نامے کی منظوری دے دی، تو وزیر داخلہ سالوینی نے اسے ملکی سلامتی کی طرف ایک اہم قدم قرار دہتے ہوئے اس کو بھرپور انداز میں سراہا۔
ماتیو سالوینی نے کہا، ''مجھے ہر ممکن حد تک یقین ہے کہ یہ حکم نامہ تمام تر قومی اور بین الاقوامی قوانین سے قطعی مطابقت رکھتا ہے اور کسی بھی مروجہ قانون کے منافی نہیں ہے۔
پولیس کے اضافی اختیارات
اسی حکم نامے کے ذریعے اطالوی پولیس کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ تارکین وطن کی اٹلی آمد سے متعلق انسانوں کی ممکنہ اسمگلنگ کے الزام میں اپنی تفتیش کے لیے خفیہ طریقے بھی اختیار کر سکے گی۔ اسی شق کے تحت پولیس کو انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے مشتبہ عناصر کی الیکٹرانک جاسوسی کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔
ماتیو سالوینی کو اطالوی وزیر داخلہ کے منصب پر فائز ہوئے تقریباً ایک سال ہو چکا ہے۔ اس دوران وہ کئی ایسے نئے سرکاری ضابطے اور حکم نامے بھی متعارف کرا چکے ہیں، جن کا مقصد تارکین وطن کی آمد کو روکنا ہے۔
ان میں سے اہم ترین اور بہت ہی متنازعہ فیصلہ وہ تھا، جس کے تحت روم حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں ایسے تارکین وطن کے لیے، جو مہاجرین کی باقاعدہ قانونی حیثیت کے حقدار نہ ہوں، انسانی بنیادوں پر تحفظ کی قانونی سہولت بھی ختم کر دی تھی۔
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
6 تصاویر1 | 6
کھلے سمندروں میں لاکھوں انسانی جانوں کو خطرہ
گزشتہ کئی برسوں کے دوران شمالی افریقی ممالک سے سمندر پار کر کے لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن جنوبی یورپ کے یونان، اٹلی اور اسپین جیسے ممالک میں پہنچ چکے ہیں۔ صرف بحیرہ روم کے وسطی حصے سے انتہائی غیر محفوظ کشتیوں کے ذریعے خطرناک سفر کر کے اٹلی پہنچنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی 2014ء سے لے کر اب تک کی تعداد ہی چھ لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ اس دوران 14 ہزار سے زائد تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افرد سمندر میں ڈوب کر ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
سال رواں کے دوران ہلاکتیں
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے امدادی ادارے یو این ایچ سی آر اور بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت آئی او ایم کے اعداد و شمار کے مطابق شمالی افریقہ سے اس سال کے دوران اب تک یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد بھی دو ہزار کے قریب ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ اسی سفر کے دوران گزشتہ قریب ساڑھے پانچ ماہ کے عرصے میں یورپ پہنچنے کے خواہش مند تقریباً 350 تارکین وطن سمندر میں ڈوب کر ہلاک بھی ہو گئے۔
م م / ع ح / اے ایف پی
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔