تارکین وطن کو قانونی طریقے سے جرمنی لانے کی حکومتی پالیسی
28 اپریل 2019
مہاجرین کے حوالے سے جرمنی نے ایسی پالیسی اختیار کی ہے، جس کے تحت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قانونی طریقے سے تارکین وطن کو ملک میں لا کر آباد کیا جا رہا ہے۔ جانیے جرمنی کی ’ری سیٹلمنٹ امیگریشن پالیسی‘ کیا ہے؟
اشتہار
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی میں ’کوٹہ سسٹم آبادکاری‘ کے تحت لائے گئے مہاجرین کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی لائے گئے ان مہاجرین کو ’ری سیٹلمنٹ مہاجرین‘ کا درجہ دیا جاتا ہے۔
جرمن حکومت کے اس پروگرام کے تحت بحران زدہ علاقوں سے تحفظ کے حقدار افراد کو براہ راست جرمنی لا کر آباد کیا جاتا ہے۔ ایسے پروگرام برلن حکومت کی پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
مصر میں یو این ایچ سی آر کے رجسٹریشن آفیسر نوربرٹ ٹروزین بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں، ’’یورپی یونین اور دنیا میں جرمنی اس حوالے سے آگے ہے۔‘‘ جرمنی کی اس پالیسی میں تبدیلی کی ایک وجہ یورپی کمیشن کا وہ مطالبہ بھی ہے، جو اس نے ستمبر دو ہزار سترہ میں کیا تھا۔
یورپی کمیشن نے اپنے رکن ممالک سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یورپی یونین کے ’ری سیٹلمنٹ پروگرامز‘ کے تحت سن دو ہزار اٹھارہ اور سن دو ہزار انیس میں کم از کم 50 ہزار تارکین وطن کو قبول کریں۔
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں کا تعلق کن ممالک سے؟
وفاقی جرمن دفتر روزگار کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والے بارہ فیصد افراد غیر ملکی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر تک ملک میں چالیس لاکھ اٹھاون ہزار غیر ملکی شہری برسر روزگار تھے۔ ان ممالک پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں:
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
1۔ ترکی
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
2۔ پولینڈ
یورپی ملک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے 4 لاکھ 33 ہزار افراد گزشتہ برس نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
3۔ رومانیہ
رومانیہ سے تعلق رکھنے والے 3 لاکھ 66 ہزار افراد جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
4۔ اٹلی
یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی کے بھی 2 لاکھ 68 ہزار شہری جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPHOTO
5۔ کروشیا
یورپی ملک کروشیا کے قریب 1 لاکھ 87 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Gerten
6۔ یونان
یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے قریب 1 لاکھ 49 ہزار باشندے جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
7۔ بلغاریہ
جرمنی میں ملازمت کرنے والے بلغاریہ کے شہریوں کی تعداد بھی 1 لاکھ 34 ہزار کے قریب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
8۔ شام
شامی شہریوں کی بڑی تعداد حالیہ برسوں کے دوران بطور مہاجر جرمنی پہنچی تھی۔ ان میں سے قریب 1 لاکھ 7 ہزار شامی باشندے اب روزگار کی جرمن منڈی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kögel
9۔ ہنگری
مہاجرین کے بارے میں سخت موقف رکھنے والے ملک ہنگری کے 1 لاکھ 6 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
جرمنی میں کام کرنے والے روسی شہریوں کی تعداد 84 ہزار ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
17۔ افغانستان
شامی مہاجرین کے بعد پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والوں میں افغان شہری سب سے نمایاں ہیں۔ جرمنی میں کام کرنے والے افغان شہریوں کی مجموعی تعداد 56 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-U. Koch
19۔ بھارت
بھارتی شہری اس اعتبار سے انیسویں نمبر پر ہیں اور جرمنی میں کام کرنے والے بھارتیوں کی مجموعی تعداد 46 ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: Bundesverband Deutsche Startups e.V.
27۔ پاکستان
نومبر 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار پاکستانی شہریوں کی تعداد 22435 بنتی ہے۔ ان پاکستانی شہریوں میں قریب دو ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
13 تصاویر1 | 13
’’غیرقانونی امیگریشن میں کمی‘‘
جرمنی نے یورپی کمیشن کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آبادکاری کے مطالبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے دو برسوں میں دس ہزار دو سو مہاجرین کو قانونی طریقے سے جرمنی لانے کا فیصلہ کیا تھا۔
وفاقی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان سٹیو آلٹر کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’قانونی طریقے سے آبادکاری مائیگریشن پالیسی کا ایک اہم عنصر ہے۔‘‘ ترجمان سٹیو آلٹر کا مزید کہنا تھا کہ اس کا مقصد انسانی اسمگلروں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے تاکہ غیرقانونی تارکین وطن کی آمد میں کمی لائی جا سکے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تحفظ کے ضرورت مند افراد کو جرمنی تک قانونی راستہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔
آبادکاری کے ہی ایک پروگرام کے تحت جرمنی نے سن دو ہزار بارہ اور سن دو ہزار چودہ میں تین سو تارکین وطن کو قبول کیا تھا لیکن سن دو ہزار سترہ میں جرمنی اپنی امیگریشن پالیسی میں واضح تبدیلی لایا تھا اور برلن حکومت نے سالانہ بنیادوں پر بحران زدہ علاقوں سے لائے جانے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ کر دیا تھا۔
سن دو ہزار سولہ میں جرمنی نے آباد کاری کا ایک معاہدہ ترک حکومت کے ساتھ بھی کیا تھا، جس کے تحت چھ ہزار شامی مہاجرین کو قانونی طریقے سے جرمنی لا کر آباد کیا جائے گا۔
تحفظ کے ضرورت مند افراد کی آبادکاری کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ یو این ایچ سی آر کے رجسٹریشن آفیسر نوربرٹ ٹروزین کے مطابق ’ای یو۔ ترکی ڈیل‘ مستقبل میں جرمنی کی امیگریشن پالیسی کا ’بلیو پرنٹ‘ ثابت ہو سکتی ہے۔
ا ا / ع س (Astrid Prange)
تارکین وطن کی سماجی قبولیت، کن ممالک میں زیادہ؟
’اپسوس پبلک افیئرز‘ نامی ادارے نے اپنے ایک تازہ انڈیکس میں ستائیس ممالک کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ کن ممالک میں غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۱۔ کینیڈا
پچپن کے مجموعی اسکور کے ساتھ تارکین وطن کو معاشرتی سطح پر ملک کا ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے میں کینیڈا سب سے نمایاں ہے۔ کینیڈا میں مختلف مذاہب، جنسی رجحانات اور سیاسی نظریات کے حامل غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ ترک وطن پس منظر کے حامل ایسے افراد کو، جو کینیڈا میں پیدا ہوئے، حقیقی کینیڈین شہری کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Denette
۲۔ امریکا
انڈیکس میں امریکا دوسرے نمبر پر ہے جس کا مجموعی اسکور 54 رہا۔ امریکی پاسپورٹ حاصل کرنے والے افراد اور ترک وطن پس منظر رکھنے والوں کو حقیقی امریکی شہری کے طور پر ہی سماجی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/S. Senne
۳۔ جنوبی افریقہ
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے انڈیکس میں 52 کے مجموعی اسکور کے ساتھ جنوبی افریقہ تیسرے نمبر پر ہے۔ مختلف مذاہب کے پیروکار غیر ملکیوں کی سماجی قبولیت کی صورت حال جنوبی افریقہ میں کافی بہتر ہے۔ تاہم 33 کے اسکور کے ساتھ معاشرتی سطح پر شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکیوں کو بطور ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے کا رجحان کم ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khan
۴۔ فرانس
چوتھے نمبر پر فرانس ہے جہاں سماجی سطح پر غیر ملکی ہم جنس پرست تارکین وطن کی سماجی قبولیت دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ تاہم جنوبی افریقہ کی طرح فرانس میں بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کے باوجود تارکین وطن کو سماجی طور پر حقیقی فرانسیسی شہری قبول کرنے کے حوالے سے فرانس کا اسکور 27 رہا۔
تصویر: Reuters/Platiau
۵۔ آسٹریلیا
پانچویں نمبر پر آسٹریلیا ہے جس کا مجموعی اسکور 44 ہے۔ سماجی سطح پر اس ملک میں شہریت حاصل کر لینے والے غیر ملکیوں کی بطور آسٹریلین شہری شناخت تسلیم کر لی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں غیر ملکی افراد کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی معاشرہ حقیقی آسٹریلوی شہری قبول کرتا ہے۔
تصویر: Reuters
۶۔ چلی
جنوبی افریقی ملک چلی اس فہرست میں بیالیس کے اسکور کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ ہم جنس پرست غیر ملکی تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے حوالے سے چلی فرانس کے بعد دوسرا نمایاں ترین ملک بھی ہے۔ تاہم دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملکی مرکزی سماجی دھارے کا حصہ سمجھنے کے حوالے سے چلی کا اسکور محض 33 رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۷۔ ارجنٹائن
ارجنٹائن چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ اس درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تارکین وطن کی دوسری نسل اور ہم جنس پرست افراد کی سماجی سطح پر قبولیت کے حوالے سے اجنٹائن کا اسکور 65 سے زائد رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۸۔ سویڈن
سویڈن کا مجموعی اسکور 38 رہا۔ ہم جنس پرست تارکین وطن کی قبولیت کے حوالے سے سویڈن کو 69 پوائنٹس ملے جب کہ مقامی پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو بطور حقیقی شہری تسلیم کرنے کے سلسلے میں سویڈن کو 26 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۹۔ سپین
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے لحاظ سے اسپین کا مجموعی اسکور 36 رہا اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ ہسپانوی شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکی افراد کی سماجی قبولیت کے ضمن میں اسپین کا اسکور محض 25 جب کہ تارکین وطن کی دوسری نسل کو حقیقی ہسپانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے اسکور 54 رہا۔
تصویر: picture-alliance/Eventpress
۱۰۔ برطانیہ
اس درجہ بندی میں پینتیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ برطانیہ دسویں نمبر پر ہے۔ اسپین کی طرح برطانیہ میں بھی تارکین وطن کی دوسری نسل کو برطانوی شہری تصور کرنے کا سماجی رجحان بہتر ہے۔ تاہم برطانوی پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی برطانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے برطانیہ کا اسکور تیس رہا۔
تصویر: Reuters/H. Nicholls
۱۶۔ جرمنی
جرمنی اس درجہ بندی میں سولہویں نمبر پر ہے۔ جرمنی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی سماجی قبولیت کینیڈا اور امریکا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اس حوالے سے جرمنی کا اسکور محض 11 رہا۔ اسی طرح جرمن پاسپورٹ مل جانے کے بعد بھی غیر ملکیوں کو جرمن شہری تسلیم کرنے کے سماجی رجحان میں بھی جرمنی کا اسکور 20 رہا۔
تصویر: Imago/R. Peters
۲۱۔ ترکی
اکیسویں نمبر پر ترکی ہے جس کا مجموعی اسکور منفی چھ رہا۔ ترکی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو سماجی سطح پر ترک شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس ضمن میں ترکی کو منفی بارہ پوائنٹس دیے گئے۔ جب کہ پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی ترک شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے ترکی کا اسکور منفی بائیس رہا۔