یورپی یونین کے رہنما تارکین وطن کی آمد کی روک تھام کے لیے شمالی افریقی ممالک کے ساتھ تعاون کو وسعت دینے کے لیے بات چیت میں مصروف ہیں۔
اشتہار
یورپی یونین کی سربراہی اجلاس کے لیے تیار کردہ مشترکہ بیان کے مسودے میں زور دیا گیا ہے کہ ایسے ممالک کے ساتھ تعاون میں اضافہ کیا جائے گا، جہاں سے تارکین وطن یورپی یونین پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ ساتھ ہی ان ممالک کو بھی ساتھ ملایا جائے گا، جو ان مہاجرین کے لیے ’ٹرانزٹ ممالک‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس مسودے کے مطابق ایسے ممالک کے ساتھ تعاون میں اضافہ کیا جائے گا، جو انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں سے متعلق تفتیش، ان کے انسداد اور ان کے خلاف مقدمات میں مصروف ہیں۔ یہ سربراہی اجلاس برسلز میں جاری ہے۔
واضح رہے کہ سن 2015ء سے اب تک یورپی یونین میں داخل ہونے والوں کی تعداد ایک ملین سے زائد ہے، جن میں سے اکثریت شامی اور عراقی مہاجرین کی ہے، تاہم دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے بھی یورپ کا رخ کیا ہے۔ ترکی کے ساتھ یورپی یونین کے سن 2016ء میں طے پانے والے معاہدے کے بعد بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان پہنچنے اور پھر دیگر یورپی ممالک کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں تو نمایاں کمی ہوئی ہے، تاہم شمالی افریقی ممالک خصوصاﹰ لیبیا سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپی یونین کا رخ کرتی دکھائی دی ہے۔ اٹلی میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے قیام کے بعد بحیرہء روم میں ریسکیو کیے جانے والے مہاجرین کو قبول نہ کرنے کے فیصلے کے بعد اب اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
دنیا پلاسٹک میں ڈوب رہی ہے، آپ کیا کر رہے ہیں؟
دنیا میں پلاسٹک کے استعمال کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اب یورپی یونین نے بھی اس کا استعمال کم کرنے کے لیے ایک منصوبہ متعارف کروایا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے صرف کمپنیوں کی ہی نہیں بلکہ صارفین کی مدد بھی ضروری ہے۔
تصویر: Imago/Zumapress/S. Chung
آپ کتنا پلاسٹک استعمال کرتے ہیں؟
کیا ہر چیز میں پلاسٹک کا استعمال ضروری ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ لوگوں کی احتجاج کی وجہ سے میکڈونلڈ اور سٹار بکس جیسی بڑی کمپنیاں پلاسٹک سٹرا کی جگہ جلد ہی ماحول دوست سٹرا متعارف کروائیں گی۔ بطور صارف آپ بھی پلاسٹک کے استعمال میں کمی کے لیے احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ پلاسٹک کچرے میں کمی کے لیے چند تجاویز مندرجہ ذیل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Zoehrer
سُستی بمقابلہ ماحول دوستی
ستر کی دہائی میں کھانا پیک کروانے اور ساتھ لے جانے کا رواج شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکا بھر میں پھیل گیا۔ کھانا گھر لانے اور آرام سے کھانے کا خیال برا نہیں لیکن اس سہولت کے ساتھ پلاسٹک کچرے کے نتائج کو ںظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ کھانا دکان یا ریستوران پر جا کر کھائیں یا پھر گھر میں ہی پکائیں۔
مائیکرو پلاسٹک ذرات ہمارے کپڑوں سے نکلتے ہیں اور نالیوں سے ہوتے ہوئے زیر زمین پانی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اسپورٹ کپڑے عموماً پولی ایسٹر، نائلون اور اس جیسے دیگر مصنوعی دھاگوں سے بنتے ہیں۔ ان کے متبادل یا پھر خالص کاٹن کے کپڑے خرید کر اس ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
تصویر: REUTERS/H. Hanschke
مائیکرو فضلہ بند کریں!
برلن کی ایک فرم نے ایک ’ماحول دوست تھیلا‘ تیار کیا ہے۔ یہ پلاسٹک کے تمام چھوٹے ذرات کو پانی میں بہنے سے روکتا ہے۔ یہ فلٹر ہاتھ سے صاف کیا جا سکتا ہے اور ماحول دوست بھی ہے۔
تصویر: Stop! Micro Waste
دانتوں کی صفائی ماحولیاتی انداز میں
ماہرین ہر تین ماہ بعد برش تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ بات صحت کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن اس سے دنیا میں اچھا خاصا پلاسٹک کچرا پیدا ہو رہا ہے۔ اب مارکیٹ میں لکڑی کے بنے برش بھی آ چکے ہیں۔ آئندہ کوشش کر کے یہی لکڑی یا بانس سے بنے برش خریدے۔
تصویر: picture alliance/dpa/I. Kjer
چھوٹی چیزیں لیکن بڑا نقصان
دانتوں کے برش سے بھی کم مدت کان صاف کرنے والی پُھریری کی ہوتی ہے۔ یہ پہلے کوڑے کرکٹ میں جاتی ہیں اور پھر اکثر سمندری پانی میں۔ اب اس کے متبادل آ چکے ہیں۔ کان صاف کرنے کے لیے کاغذ کی پُھریری بھی ملتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Marks
مزید چھوٹی چیزیں
شیمپو، میک اپ، شاور جیل، دانتوں کی پیسٹ اور اس طرح کی درجنوں اشیا میں مائیکرو پلاسٹک استعمال کیا جاتا ہے۔ خریداری کے وقت دھیان دیں۔ وہ اشیاء خریدیں، جن کے اجزا میں پی ای، پی پی، پی اے اور پی ای ٹی نہ لکھا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
ٹائروں کا مائیکرو پلاسٹک
جرمنی میں سب سے زیادہ مائیکرو پلاسٹک ٹائروں کی رگڑ کی وجہ سے ماحول میں شامل ہو رہا ہے۔ جرمن اداروں کے مطابق اس طرح اس ملک میں سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار ٹن پلاسٹک ماحول میں شامل ہوتا ہے۔ مطلب جہاں تک ممکن ہو گاڑی کم چلائیں۔
تصویر: Getty Images/P. Macdiarmid
8 تصاویر1 | 8
مہاجرین کے بہاؤ کے تناظر میں یورپی یونین کی متعدد رکن ریاستوں میں کئی اہم جماعتوں کو بھی سخت عوامی ردعمل کا سامنا ہے۔ اسی تناظرمیں جرمنی سمیت متعدد یورپی ریاستوں میں مہاجرین مخالف جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔