تارکین وطن کی آمد کی حد مقرر نہیں کر سکتے، جرمن وزیر داخلہ
1 اکتوبر 2023
جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے کہا ہے کہ جرمنی اپنے ہاں پناہ کے لیے آنے والے تارکین وطن کی آمد کی کوئی زیادہ سے زیادہ سالانہ حد مقرر نہیں کر سکتا۔ یوں انہوں نے صوبے باویریا کے وزیر اعلیٰ کی اس بارے میں تجویز رد کر دی ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں بھی کافی عرصے سے مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کی آمد ایک بڑا داخلی سیاسی موضوع بنی ہوئی ہے۔ ایسے یورپی ممالک میں عوامیت پسند سیاست دان اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی سوچ کے حامل حلقے اپنے معاشروں میں بڑی تعداد میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کے خلاف ہیں۔
باویریا کے وزیر اعلیٰ کا مطالبہ
اس موضوع پر اظہار رائے کرتے ہوئے جنوبی جرمن صوبے باویریا کے قدامت پسند جماعت کرسچن سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ مارکوس زوئڈر نے ابھی حال ہی میں مطالبہ کیا تھا کہ جرمنی میں مہاجرین اور پناہ کے متلاشی تارکین وطن کی آمد کی سالانہ بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ تعداد کی ایک حد مقرر کی جانا چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی تھی کہ یہ سالانہ تعداد دو لاکھ ہو سکتی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں تنازعات، موسمیاتی تبدیلیوں اور اقتصادی مسائل کے باعث دنیا کے مختلف خطوں سے امیر ممالک کی طرف ہجرت جاری ہے۔ تارکین وطن کے ساتھ پیش آنے والے کچھ ہلاکت خیز ترین واقعات
تصویر: Gareth Fuller/PA/picture alliance
امریکہ، ایک ٹرک سے 50 تارکین وطن کی لاشیں برآمد
اس سال 27 جون کو امریکہ کے شہر سان انتونیو میں ایک لاوارث ٹرک میں سوار پچاس تارکین وطن ہلاک ہو گئے۔ انہیں شدید گرمی میں ٹرک کے اندر چھوڑ دیا گیا تھا۔
تصویر: Eric Gay/AP Photo/picture alliance
برطانیہ پہنچنے کی خواہش جان لیوا ثابت ہوئی
23 اکتوبر 2019ء کو ویتنام کے 39 تارکین وطن برطانیہ کے شہر ایسکس میں ایک ٹرک میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ اس واقعہ میں ملوث چار افراد کو قتل کے جرم میں سزا دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Grant
سان انتونیو کا دردناک حادثہ
23 جولائی 2017ء میں سان انتونیو کی شدید گرمی میں سپر مارکیٹ وال مارٹ کے احاطے میں پارک ایک ٹرک میں 8 تارکین وطن مردہ حالت میں ملے۔ دیگر دو بعد میں ہسپتال میں ہلاک ہو گئے۔ ٹرک کے ڈرائیور کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
تصویر: Reuters/R. Whitehouse
افریقی تارکین وطن کی ہلاکتیں
20 فروری 2017ء میں ایک شپنگ کنٹینر میں 13 افریقی تارکین وطن دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ کنٹینر لیبیا کے ایک شہر سے دوسرے شہر لے جایا جا رہا تھا۔ زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق مالی سے تھا۔ اس کنٹینر میں کل 69 تارکین وطن سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
ستر سے زائد ہلاکتیں
27 اگست 2015ء کو آسٹریا کی پولیس کو ایک لاوارث ٹرک ملا۔ اس ٹرک میں 71 تارکین وطن مردہ حالت میں موجود تھے۔ ہلاک شدگان میں آٹھ بچے بھی شامل تھے۔ ان تارکین وطن افراد کا تعلق افغانستان، شام اور عراق سے تھا۔ یہ ٹرک ہنگری سے آسٹریا پہنچایا گیا تھا۔
تصویر: Robert Jaeger/AFP
افغان مہاجرین کی پاکستان کے ذریعے مہاجرت کی کوشش
4 اپریل 2009ء کو جنوب مغربی پاکستان میں ایک کنٹینر میں 35 افغان تارکین وطن کی لاشیں ملیں۔ انتظامیہ کے مطابق اس کنٹینر میں ایک سو سے زائد افراد سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Gulfam
میانمار کے مہاجرین
9 اپریل 2008ء کو تھائی لینڈ سے ایک ایئرٹائٹ فریزر والے ٹرک سے 54 تارکین وطن افراد کی لاشیں ملیں۔ ان سب کا تعلق میانمار سے تھا۔
تصویر: AFP
ٹیکساس میں ہلاکتیں
14 مئی 2003ء کو 19 تارکین وطن جنوبی ٹیکساس سے ہوسٹن کی طرف روانہ تھے۔ اس دوران شدید گرمی کے باعث یہ افراد اسی ٹرک میں دم توڑ گئے۔
تصویر: William Luther/San Antonio Express-News/ZUMA/picture alliance
چینی تارکین وطن کی برطانیہ جانے کی کوشش
18 جون 2008ء کے روز 58 چینی تارکین وطن انگلینڈ کے بندرگاہی شہر ڈوور میں ٹرک کے اندر مردہ پائے گئے۔ ایک ڈچ ٹرک نے تارکین وطن کو بیلجیم سے برطانیہ پہنچایا تھا۔ اس حادثے میں دو افراد زندہ بھی بچ گئے تھے۔ ب ج/ ع ا (اے پی)
تصویر: Edward Crawford/Sopa/Zuma/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
وفاقی وزیر داخلہ کا انکار
وزیر اعلیٰ زوئڈر کے مطالبات کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ فیزر نے جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''ہم جرمنی میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ تعداد کی کوئی سالانہ حد مقرر نہیں کر سکتے کیونکہ دیگر ممالک کی طرح جرمنی پر بھی یورپی یونین کے قوانین اور بین الاقوامی ضابطوں کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘
قدامت پسند سیاست دان زوئڈر کے بیانات کے برعکس وفاقی جرمن وزیر داخلہ نے واضح طور پر کہا، ''تارکین وطن کی آمد ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا حقیقی معنوں میں مددگار ثابت ہونے والا کوئی بھی حل صرف ایک یورپی حل ہی ہو سکتا ہے۔‘‘