تارکین وطن کی کشتی کو حادثہ: تیرہ لاشیں ہی مل سکیں
19 دسمبر 2011دو روز قبل انڈونیشیا کے جزیرے جاوا کے قریب تارکین وطن کی ڈوبنے والی ایک کشتی پر سوار 250 افراد میں سے صرف چونتیس کو زندہ بچایا جا سکا تھا۔ ریسکیو حکام نے بتایا ہے کہ تیرہ افراد کی لاشیں مل چکی ہیں جبکہ باقی تاحال لاپتہ ہیں۔ حکام کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ نہ ملنے والے افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کشتی پر سوار زیادہ تر افراد کا تعلق افغانستان اور ایران سے بتایا گیا ہے۔
انڈونیشیا کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمینٹ اتھارٹی کے مطابق تیرہ افراد کی لاشیں پیر کے روز جمبر ڈسٹرکٹ کے ساحل پر تیرتی ہو ملی ہیں۔ حکام کے مطابق انہیں ان لاشوں کے بارے میں اطلاع قریب سے گزرتے ہوئے کوئلہ بردار ایک جہاز کے عملے نے دی۔
اس علاقے میں تارکین وطن کے حوالے سے گزشتہ دس برسوں میں پیش آنے والا یہ بد ترین واقعہ ہے۔ قبل ازیں سن 2001 میں انڈونیشیا اور آسٹریلیا کے درمیان تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوبی تھی، جس پر 353 افراد سوار تھے۔
240 ملین آبادی اور سترہ ہزار سے زائد جزائر پر مشتمل انڈونیشیا میں کشتیاں آمدو رفت کا ایک مقبول اور بنیادی ذریعہ ہیں اور آسٹریلیا سمیت مشرق وسطیٰ کے لیے انسانی اسمگلنگ کے اہم روٹس بھی یہاں سے نکلتے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ دراصل یہ مچھیروں کی ایک روایتی کشتی تھی، جس پر ایک سو افراد کی گنجائش تھی۔ بچ جانے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملکوں کی سیاسی اور معاشی صورتحال سے تنگ آچکے تھے اور اور روشن مستقبل کی تلاش میں آسٹریلیا جانا چاہتے تھے۔ ریسکیو ٹیم کے سربراہ لیفٹینینٹ علوی مُدذاکر کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ کشتی میں گنجائش سے زیادہ افراد کے سوار ہونے کی وجہ سے پیش آیا۔
کشتی پر سوار اور زندہ بچ جانے والے ایک 24 سالہ افغان مسافر کا کہنا تھا: ’’کشتی کی حالت بہتر نہیں تھی، یونہی کشتی نے ڈولنا شروع کیا تو وہاں افراتفری پھیل گئی اور کشتی الٹ گئی۔ میں اور چند دوسرے افراد ٹوٹی ہوئی کشتی کے تختوں سے لپٹے رہے، یہاں تک کہ ہمیں بچا لیا گیا۔‘‘
علوی مُدذاکر کے مطابق کشتی کے 50 کلومیٹر رداس میں پروازیں جاری ہیں اور ابھی تک انہیں کوئی بھی مزید زندہ فرد نہیں ملا ہے۔ ان کے مطابق اس شدید موسم میں کوئی بھی انسان پانی میں 24 گھنٹے سے زائد تک زندہ نہیں رہ سکتا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل