جرمنی میں موجود شامی مہاجرین جو جرمن زبان سیکھنے اور بولنے میں مصروف نظر آتے ہیں، کبھی کبھی کسی جرمن لفظ کو درست ادا نہیں کر پاتے اور خود ہی کھلکھلا کر ہنسنے لگتے ہیں۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن کے مشرقی حصےمیں مہاجرین کے ایک کمیونٹی سینٹر کے استقبالیہ پر بہت رش ہے۔ بہت سے شامی مہاجرین ہیں، جن کی مادری زبان تو عربی ہے، مگر یہ افراد اس استقبالیہ پر جرمن زبان بول کر اپنی درستی کرتے میں مصروف ہوتے ہیں، تاہم کبھی کبھی انہیں کسی ایسے لفظ سے واسطہ پڑ جاتا ہے، جسے بولنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خود بھی قہقہے لگا کر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ جرمن میں کسی اور زبان کا لفظ بول دیتے ہیں اور پھر خود ہی چونک جاتے ہیں۔
جرمن شہریوں کی غربت کی کہانیاں
بے گھر، کھانے پینے میں بچت اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جرمنی میں ہر تیسرا شہری غربت سے متاثر ہے۔ ایسے افراد کی کہانیاں تصویروں کی زبانی۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غیر یقینی مستقبل
یہ تصویر جرمن وفاقی ریاست اور شہر بریمن کے غریب ترین سمجھے جانے والے علاقے کی ہے۔ بریمن میں ہر پانچویں شخص کو غربت کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمنی میں غریب اسے تصور کیا جاتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی درمیانے درجے کے جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی سے ساٹھ فیصد سے کم ہو۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بھوک کے خلاف جنگ
بریمن میں تین ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنہوں نے غربت اور بھوک کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ ادارے سپر مارکیٹوں اور بیکریوں سے بچا ہوا کھانا اور اشیائے ضرورت جمع کر کے ضرورت مند افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی ایک تنظیم ہر روز قریب سوا سو افراد کو کھانا مہیا کرتی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
نسلی تفریق سے بالاتر
جرمن شہر ایسن میں ایک نجی تنظیم نے غیر ملکی افراد کو مفت خوراک مہیا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر شدید تنقید سامنے آنے کے بعد انہیں فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ بریمن میں سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ وہ ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے غریب افراد کی مدد کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بوڑھے بھی پیش پیش
اسی سالہ ویرنر ڈوزے رضاکارانہ طور پر غریبوں کو خوراک مہیا کرنے والی تنظیم بریمنر ٹافل کے لیے کام کرتے ہیں۔ کئی افراد ایک یورو فی گھنٹہ اجرت کے عوض اور بہت سے رضاکار طالب علم بھی ’غربت کے خلاف جنگ‘ کا حصہ ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
ہالے میں اجڑے گھر
مشرقی جرمنی میں ہالے شہر کی رونقیں قابل دید تھیں لیکن اب ہالے نوئے اسٹڈ کا علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہالے میں بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے اور روزگار ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
محروم طبقے کی مدد
ہالے میں محروم ترین طبقے کی مدد کے لیے انہیں کم داموں پر اشیائے خورد و نوش اور کپڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان ’سوشل مارکیٹوں‘ میں محروم ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں اور معمر افراد کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اشیا فراہم کی جاتی ہیں لیکن غریب ترین جرمن شہر ہالے میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’زیادہ تر خریدار غیر ملکی‘
یہ تصویر ایک ایسے اسٹور کی ہے جہاں گھر کی اشیا سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسٹور کے ملازم کا کہنا ہے کہ خریداروں کی اکثریت غیر ملکیوں اور مہاجرین کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول غریب جرمن شہری شاید استعمال شدہ اشیا خریدنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غربت میں پروان چڑھتے بچے
جرمنی میں قریب ایک ملین بچے غربت کا شکار ہیں۔ ایسے بچے نہ تو سالگرہ کی تقریبات منا پاتے ہیں، نہ کھیلوں کے کلبوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر ساتواں بچہ حکومت کی فراہم کردہ سماجی امداد کا محتاج ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’کوئی بچہ بھوکا نہ رہے‘
’شنٹے اوسٹ‘ نامی ایک تنظیم چھ سے پندرہ برس عمر کے پچاس بچوں کو اسکول کے بعد کھانا مہیا کرتی ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر بیٹینا شاپر کہتی ہیں کہ کئی بچے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کے لیے بھی گرم کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ اس تنظیم کی خواہش ہے کہ کوئی بچہ گھر بھوکا نہ جائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’ہم ایک خاندان ہیں‘
بیٹینا شاپر کا کہنا ہے کہ ضرورت مند بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن میں مہاجر بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان کی تنظیم بچوں کو کھانا مہیا کرنے کے علاوہ ہوم ورک اور روز مرہ کے کاموں میں بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔ دانت صاف کرنے کا درست طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بڑھتی تنہائی
ایک اندازے کے مطابق قریب چھ ہزار بے گھر افراد برلن کی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ جرمن دارالحکومت کے ساٹھ فیصد بے گھر افراد غیر ملکی ہیں اور ان کی اکثریت کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بے گھروں کے چکنا چور خواب
ایک حادثے میں یورگ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور وہ گزشتہ چھ برس سے بے گھر ہے۔ یورگ کا کہنا ہے کہ برلن میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد میں آپسی مقابلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ تعمیر کے فن میں مہارت رکھنے والے اڑتیس سالہ یوگ کی خواہش ہے کہ کسی دن وہ دوبارہ ڈرم بجانے کے قابل ہو پائے۔
جب یہ مہاجر جرمن زبان سیکھتے اور بولنے کی مشق کرتے ہیں، دوسری جانب ان کے بچوں کو اضافی ٹیوشن کے ذریعے ’بیک آن ٹریک سیریا‘ نامی مرکز میں تربیت دی جاتی ہے۔ ’بیک آن ٹریک سیریا‘ برلن کے مشرقی حصے میں ایک سماجی بہبود کا اسکول ہے، جہاں ان شامی بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے، جن کی زندگی کے کئی برس جنگ کی وجہ سے تعلیم سے دوری کی نذر ہو گئے اور اب یہ اسکول ان بچوں کو پڑھا کر عام بچوں کے برابر لانے کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
شامی شہر حلب سے تعلق رکھنے والی شیرین سیدو ریشو کے مطابق، ’’میں اپنے بچوں کے حوالے سے بے حد خوف زدہ تھی، میری بیٹی وہاں اسکول جاتی تھی جب کہ ہر طرف بم بھی گرتے رہتے تھے۔‘‘
یہ خاتون دو برس قبل اپنے دو بچوں کے ہم راہ جرمنی منتقل ہو گئی تھیں اور اب ان کے دونوں بچے اسی مرکز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سیدو ریشو نے کہا، ’’بچے یہاں آتے ہیں اور کھیلتے ہیں۔ ان کے نئے دوست ہیں۔ سو یہ مرکز صرف پڑھائی لکھائی ہی کی جگہ نہیں۔ پھر مجھے یہ بھی اچھا لگتا ہے کہ ہم یہاں بیٹھتے ہیں اور آپس میں جرمن زبان میں بات کرتے ہیں۔‘‘
’جرمن زبان بھی سیکھی پھر بھی ڈی پورٹ کر دیا جاؤں گا‘
02:42
جرمن میں سن 2014 کے بعد قریب ایک اعشاریہ چھ ملین مہاجرین پہنچے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرقی وسطیٰ اور افریقہ سے ہے۔ اسی تناظر میں جرمنی میں سیاسی طور پر بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین دوست پالیسیوں کی وجہ سے ان کی قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کو عوامی سطح پر تنقید کا سامنا بھی ہے۔ گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے عام انتخابات میں اس جماعت کو ماضی کے مقابلے میں کہیں کم نشستیں ملیں تھی۔ اسی تناظر میں اب جرمنی میں ایک وسیع تر اتحاد پر مبنی حکومت قائم ہے، جس میں میرکل کی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو، باویریا صوبے میں اس کی سسٹر پارٹی سی ایس یو اور ملک کی دوسری سب سے بڑی جماعت ایس پی ڈی نے مل کر حکومت قائم کر رکھی ہے۔ اس بحران کی وجہ سے جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین اور مسلم مخالف جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی AfD ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے۔
حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں موجود مہاجرین کو معاشرتی دھارے میں بہتر انداز سے ضم کیا جا سکے اور اس سلسلے میں حکومتی مراکز اور کاوشوں کے ساتھ ساتھ متعدد این جی اوز بھی مختلف شعبوں میں ان مہاجرین کو معاونت اور تربیت فراہم کر رہی ہیں۔