1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن کے ریسکیو جہاز کہاں جائیں؟

25 جون 2018

جرمنی اور فرانس نے مہاجرین کے بحران اور خصوصاﹰ اٹلی کی جانب سے اپنی سرزمین میں داخلہ روکنے کی وجہ سے بحیرہ روم میں پھنس جانے والے ریسکیو جہازوں کے معاملے کے حل کے لیے بات چیت کی ہے۔

A thank-you kiss
تصویر: DW/F. Warwick

اتوار کے روز یورپی یونین کی 28 رکن ریاستوں کے رہنماؤں نے برسلز میں اس معاملے پر ایک ہنگامی اجلاس میں شرکت کی، تاکہ ایک طویل عرصے سے حل طلب اس معاملے پر کسی طور کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔ نئی اطالوی حکومت کی جانب سے مزید تارکین وطن قبول نہ کرنے اور بحیرہ روم میں تارکین وطن کو ریسکیو کرنے والے جہازوں کو اپنی سرزمین میں داخلے سے روکنے کے اقدامات کے بعد مہاجرین کا بحران ایک نئے تنازعے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں پائی جانے والی تقسیم بھی واضح ہے۔

مہاجرین کا بحران، سالوینی ’مِشن لیبیا‘ پر روانہ ہو گئے

’تمام یورپی ممالک مہاجرین کو قبول کریں ورنہ فنڈز میں کمی‘

تنازعات، جنگ اور غربت کے شکار ممالک سے فرار ہونے والے ہزاروں افراد یورپی ممالک خصوصاﹰ اٹلی اور یونان کا رخ کر رہے ہیں اور اس دوران سینکڑوں افراد اس کوشش میں بحیرہء روم کی موجود کی نذر بھی ہو چکے ہیں۔

اٹلی اس حوالے سے مہاجرین کے سیلاب کا سب سے زیادہ سامنا کرنے والا ملک ہے، تاہم نئی اطالوی حکومت نے ایک طرف تو مہاجرین کے ملک میں داخلے پر ایک طرح سے پابندی عائد کر دی ہے اور دوسری جانب یورپی یونین سے بھی زیادہ تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔

اٹلی اور مالٹا کی جانب سے قبول کیے جانے سے انکار پر 239 افریقی تارکین وطن کا حامل ایک ریسکیو جہاز بحیرہ روم میں پھنسا ہوا ہے، اسی طرح اس سے قبل ایک اور بحری جہاز تارکین وطن کو اطالوی سمندری حدود میں داخلے سے روکے جانے پر آخر اسپین لایا گیا۔

اتوار کے روز انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل وزیرداخلہ ماتیو سالوینی نے واضح الفاظ میں غیرملکی امدادی اداروں کو کہا کہ وہ لیبیا سے یورپی یونین کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو بحیرہء روم میں ریسکیو کرنے کا کام روک دیں۔ سالوینی کا الزام ہے کہ ایسے ریسکیو آپریشنز ایک طرف تو ان تارکین وطن کو یورپی یونین کا رخ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور دوسری جانب ان کارروائیوں سے انسانوں کے اسمگلروں کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔

ع ت / ص ح   

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں