یونان میں رواں ہفتے کے دوران پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے لیے چار ’ہاٹ اسپاٹ‘ مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔ یونان پر ان دنوں یورپی یونین کی جانب سے تارکین وطن کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا دباؤ ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یونان کے چار جزیروں، لیسبوس، لیروس، شیوس اور ساموس میں بنائے گئے ان ’ہاٹ اسپاٹ‘ مراکز کا باقاعدہ افتتاح بدھ 17 فروری کو کیا جا رہا ہے۔ ترک ساحلوں سے یونان کی جانب سمندری سفر کرنے والے تارکین وطن کی اکثریت انہی یونانی جزیروں تک پہنچتی ہے۔
ان مراکز کا افتتاح گزشتہ برس کے اختتام پر کیا جانا تھا، تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہیں ہو سکا تھا۔ یونانی وزیر دفاع پانوس کامینوس کل منگل 16 فروری کو ایتھنز میں ایک پریس کانفرنس کرنے کے بعد ان مراکز کا دورہ کریں گے۔
یونانی جزیروں پر بنائے گئے ہر ایک ہاٹ اسپاٹ مرکز میں ایک ہزار تارکین وطن کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ تارکین وطن کو ان مراکز میں تین دن کے لیے رکھا جائے گا جہاں ان کی انگلیوں کے نشانات لینے کے علاوہ دیگر کاغذی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
شدید موسم اور مہاجرین کے بڑھتے ہوئے مسائل
01:54
ہاٹ اسپاٹ مراکز پر ہی ایسے تارکین وطن کو علیحدہ کر دیا جائے گا جنہیں یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہیں ہیں جس کے بعد انہیں یونان ہی سے اپنے وطنوں کی جانب واپس بھیج دیا جائے گا۔
ان مراکز پر پناہ گزینوں کی کڑی جانچ پڑتال بھی کی جائے گی جس کا مقصد مہاجرین کے روپ میں جہادیوں کو یورپ داخل ہونے سے روکنا ہے۔ فرانس میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث جہادیوں میں سے دو افراد مبینہ طور پر پناہ گزینوں کے ہمراہ ہی فرانس پہنچے تھے جس کے بعد سے یورپ میں اس بارے میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔
دوسری جانب یونانی جزیروں پر ان مراکز کے قیام کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران ہنگامہ آرائی بھی دیکھی گئی۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے یونانی پولیس کو آنسو گیس کا سہارا لینا پڑا تھا۔
یونانی وزیر اعظم الیکسس سِپراس جمعرات کے روز برسلز میں یورپی یونین کے سربراہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ یونان کے ہمسایہ ممالک کی جانب سے تارکین وطن کو مغربی یورپ کی جانب سفر کرنے سے روکنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس ضمن میں سپراس اور یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کے درمیان جمعرات کو ملاقات بھی ہو رہی ہے۔
آسٹریا کے وزیر خارجہ سباسچیئن کُرز کا کہنا تھا، ’’ہمیں تارکین وطن کی آمد روکنا ہو گی۔ یہ صرف اس صورت میں ہی ممکن ہے جب ہم انہیں سرحد پر روکیں۔ اگر ترکی اور یونان کی سرحد پر نہیں روکا جا سکتا تو یونان اور مقدونیا کے مابین سرحد پر روکا جائے۔ مقدونیا ایسے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
بحیرہ ایجیئن کے ذریعے سفر کرنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے یورپی محافظوں کے بعد اب نیٹو کے بحری بیڑے بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ جب کہ یورپی یونین نے یونان کو اپنی سرحدیں محفوظ بنانے اور پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے یونین کی جانب سے تجویز کردہ اقدامات پر عمل درآمد کے لیے تین ماہ کی مہلت دے رکھی ہے۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘