’جام مینار‘ کو افغانستان کے تاریخی ورثے کا ایک قیمتی جوہر تصور کیا جاتا ہے۔ افغان صوبے غور میں واقع یہ تاریخی مینار سن 1190 میں تعمیر کیا گیا تھا۔
اشتہار
افغان حکام نے تاریخی ’جام مینار‘ کو منہدم ہونے سے بچا لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سینکڑوں مزدوروں اور حکومتی اہلکاروں نے قریب سے بہتے دریائے ہری کا رخ موڑنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ خدشہ تھا کہ شدید بارشوں کے بعد آنے والا سیلاب اس قدیمی خزانے کو تباہ کر دے گا۔
شدید بارشوں کے بعد ’شہرک‘ کی تنگ وادی میں سے گزرنے والے دریائے ہری میں پانی کی سطح غیر معمولی طور پر بلند ہو گئی ہے۔ امکان پیدا ہو گیا تھا کہ تیز رفتار سیلابی ریلہ اس تاریخی یادگار کو گرا ہی نہ دے لیکن سینکڑوں افراد نے دریا کا رخ تبدیل کر کے اس مینار کو کسی بڑے نقصان سے بچا لیا۔ مینار کو محفوظ رکھنے والے پچاس فٹ یا پندرہ میٹر بلند حفاظتی پشتے کو دریائی موجوں نے نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن مینار محفوظ رہا۔
بارہویں صدی کا یہ تاریخی شاہکار افغان صوبے غور کے شہر ’شہرک‘ میں واقع ہے۔ اس کی بلندی پینسٹھ میٹر ہے اور نئی دہلی کے قطب مینار جیسا ہے۔ انتہائی تنگ وادی میں واقع یہ مینار یونیسکو کے عالمی ورثے کا حصہ بھی ہے۔
مغربی افغان صوبے کے گورنر کے ترجمان عبدالحئی خطیبی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ دریا کا رخ تو تبدیل ہو چکا ہے لیکن بلند سیلابی پانی مینار کی بنیادوں سے ٹکرا رہا ہے۔ صوبے کے ثقافتی محکمے کے سربراہ فخر الدین آرائی پور نے کابل حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مینار کی بنیادوں کی صفائی کی ضرورت ہے اور مرمت درکار ہو تو وہ بھی کی جائے۔ آرائی پور نے مستقل بنیاد پر ایک محفوظ و مضبوط دیوار تعمیر کرنے کا بھی مطالبہ کیا تا کہ مستقبل میں مینار کو ہر حال میں سیلاب سے بچایا جا سکے۔
روہتاس قلعہ، عالمی ثقافتی ورثے کی زبوں حالی
پاکستانی ضلع جہلم میں دینہ کے قریب تاریخی روہتاس قلعہ دہلی کے افغان حکمران شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا۔ آج اس قلعے کی باقیات عالمی ثقافتی میراث کا حصہ ہونے کے باوجود بہت زیادہ بدحالی کا شکار ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بانی بادشاہ شیر شاہ سوری
اس قلعے کی بنیاد افغان بادشاہ فرید خان نے، جو شیر شاہ سوری کے نام سے مشہور ہوا، تقریباً پونے پانچ سو سال قبل مئی 1542ء میں رکھی تھی۔ پتھر اور چونے سے بنائے گئے اس قلعے کی تعمیر قریب پانچ سال میں مکمل ہوئی تھی۔ بعد میں اس قلعے میں شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ کے دور میں توسیع بھی کی گئی تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
قلعے کے بارہ دروازے تھے
شیر شاہ سوری نے روہتاس قلعہ گکھڑوں کے حملوں سے بچنے کے لیے فوجی حکمت عملی کے تحت تعمیر کرایا تھا۔ اس کی تعمیر میں تین لاکھ سے زائد فوجیوں اور مزدوروں نے حصہ لیا تھا۔ اس قلعے کے بارہ دروازے تھے اور مجموعی طور پر اس کی تعمیر پر سولہ کروڑ بہلولوی سکے لاگت آئی تھی۔ تصویر میں اس قلعے کا ایک دورازہ اور ٹوٹی ہوئی فصیل کا ایک حصہ نظر آ رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سہیل دروازہ
چوہتر فٹ اونچا سہیل دروازہ، جو سہل یا سوہل دروازہ بھی کہلاتا ہے، روہتاس قلعے کا وہ واحد دروازہ ہے، جسے اب تک سب سے کم نقصان پہنچا ہے۔ قلعے میں داخلے کی اس جگہ کے اندرونی حصے میں اس دور کے ایک بزرگ سہیل خان غازی کا مزار بھی ہے اور اسی نسبت سے اسے سہیل دروازہ کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
رہتس یا سفید انڈہ
شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ صدیوں پہلے بھارت میں تعمیر کردہ اسی طرح کے ایک دوسرے قلعے کی طرز پر بنوایا تھا۔ سنسکرت میں رہتس کا مطلب ہے، سفید انڈہ۔ اونچائی سے دیکھنے پر یہ قلعہ ایک چمکتے ہوئے سفید انڈے کی طرح نظر آتا تھا۔ یہیں سے اس کا نام رہتس سے روہتاس پڑ گیا۔ اس تصویر میں فصیل کا ایک کِنگر نظر آ رہا ہے، جسے ماہر تیر انداز دشمنوں پر حملوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ٹوٹ پھوٹ کا شکار
چار سو ایکڑ رقبے پر اور اصل حالت میں غالباً اس سے بھی زیادہ علاقے پر پھیلا ہوا روہتاس قلعہ اب کوئی ایک مکمل عمارت نہیں ہے۔ اس کی باقیات جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہیں کیونکہ کئی حصے وقت کے ساتھ تباہ ہو کر ناپید ہو چکے ہیں۔ اس تصویر میں کئی عشروں پہلے ٹوٹنے والا قلعے کا ایسا حصہ نظر آ رہا ہے، جو آج تک وہیں پڑا ہے۔ دروازے کے ساتھ اور اوپر محافظوں کی برجی اور پہرہ دینے کی جگہیں بھی دی دیکھی جا سکتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعمیراتی سامان
اس تصویر کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑوں، چونے اور چکنی مٹی سے تعمیر کیا گیا یہ قلعہ اپنی تکمیل کے بعد کتنا خوبصورت نظر آتا ہو گا۔ اس قلعے کی تعمیر علاقے کی جغرافیائی نوعیت کے حساب سے کی گئی تھی۔ قلعے کی فصیل کا یہ ٹوٹا ہوا حصہ قریب سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ زمانے کی سختیوں اور مسلسل عدم توجہ کا نتیجہ کیسا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
رانی محل یا کالا محل
قلعے کا یہ حصہ رانی محل کہلاتا تھا، اب کالا محل بھی کہلاتا ہے، وجہ وقت کے ساتھ اس کی کالی ہو جانے والی رنگت ہے۔ شیر شاہ سوری کے بعد جب یہ قلعہ مغلوں کے قبضے میں آیا تو اس میں راجہ مان سنگھ کی بیوی بہن روپ کماری رہتی تھی، اسی لیے اس کا نام رانی محل پڑ گیا۔ آج یہ محل بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ جہاں کبھی شاہی شان و شوکت تھی، وہاں صدیوں سےکائی جمی ہے اور طاق ہیں جہاں صدیوں سے کوئی چراغ نہیں جلایا گیا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
فن تعمیر اور عسکری دفاع
روہتاس قلعے کا یہ حصہ غیر معمولی حد تک اچھی حالت میں ہے۔ کافی اونچی بیرونی فصیل پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر قائم محرابی شکل کی وہ کِنگریاں دیکھی جا سکتی ہیں، جن کی تعداد شروع میں سات ہزار کے قریب تھی۔ محاصرے یا حملے کی صورت میں یہاں ماہر تیر انداز تعینات کیے جاتے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گکھڑوں کی پیٹھ میں خنجر
اس قلعے کی شان و شوکت کے عروج کے دور میں یہاں ستر ہزار پیدل اور گھڑ سوار فوجی قیام کرتے تھے۔ قلعے کے دفاعی اور عوامی حصوں کے درمیان 1750 فٹ طویل ایک داخلی دیوار بھی موجود تھی۔ قلعہ تعمیر ہونے پر شیر شاہ سوری نے کہا تھا کہ اس نے گکھڑوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہے۔ لیکن اب وقت اس قلعے کی پیٹھ میں خنجر گھونپ چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
فصیل کے قریب عید گاہ
روہتاس قلعے کی فصیل سے کچھ دور اور ایک تالاب کے قریب ایک عید گاہ آج بھی موجود ہے۔ یہاں پانچ سو تک نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ بظاہر یہ عید گاہ قلعے جتنی قدیم نہیں لگتی لیکن اس کے بہت اچھی حالت میں ہونے کی ایک وجہ اس کا عیدین کے موقع پر ابھی تک مقامی آبادی کے زیر استعمال ہونا بھی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
قلعے کے باغیچے
روہتاس قلعے کی قدیم حدود کے اندر نظر آنے والے اکا دکا باغیچے ابھی بھی کافی بہتر حالت میں ہیں۔ اپنی موجودہ حالت میں یہ باغیچے قدیم اور جدید کا امتزاج نظر آتے ہیں۔ اس علاقے میں جگہ جگہ سانس لیتی تاریخ گواہ ہے کہ صدیوں پہلے جو روہتاس ایک قلعہ بند شہر کی طرح تھا، وہ اب اپنے ہی کھنڈرات کی وجہ سے پہچانا جانے والا ’روہتاس گاؤں‘ کہلاتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
قلعے کا مکمل ماڈل
محکمہٴ آثار قدیمہ کے زیر انتظام یہ قلعہ یونیسکو نے عالمی ثقافتی میراث کہلانے والے تاریخی مقامات کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے لیکن پھر بھی اس کی دیکھ بھال پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ بحالی منصوبوں میں غیر ملکی ادارے بھی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن انہیں اجازت نہیں دی جاتی۔ اس تصویر میں اونچی نیچی پہاڑیوں پر قائم روہتاس قلعے کا ایک مکمل ماڈل دیکھا جا سکتا ہے۔