1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تاریخی عمل کی تشکیل

17 نومبر 2024

تاریخی عمل کی تشکیل میں کئی عناصر حصہ لیتے ہیں۔ جیسے جیسے انسانی علم ترقی کر رہا ہے اُس کے ساتھ ہی تاریخ کے گُمشدہ پہلو بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اس میں اَرکیالوجی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

تصویر: privat

جدید دور میں متعدد انقلابوں نے تاریخ کے بارے میں ہمارے نظریات کو تبدیل کر دیا ہے۔  پہلا انقلاب انسانی ارتقاء کے مراحل کا ہے، جس کو ڈارون  نے اپنی کتاب On the Origin of Species جو 1859میں شائع ہوئی تھی، بیان کیا ہے۔ دوسرا اہم انقلاب اَرکیالوجی کے شعبے میں کاربونیٹنگ کا ہے، جس کی مدد سے قدیم اشیاء کے بارے میں یہ متعین کیا جاتا ہے کہ یہ کس سَن میں بنی تھی۔ تیسرا انقلاب DNA کا ہے، جو انسانی گروپس کی Ethnicity یا نسلیات کا تعیّن کرتا ہے۔

اِن تینوں انقلابات نے آرکیالوجی کے علم میں اضافہ کر کے اس کو وسعت دی۔ مثلاً پتھر یا کانسی کے زمانے کے قبرستانوں پر تحقیق کرتے ہوئے قبروں میں دفن ہونے والے شخص کے اوزار اور ہتھیار مِلے۔ اِن کی مدد سے ماہرین نے اُس عہد کی سماجی تاریخ مُرتب کی۔ جب آرکیالوجی کے علم کو سائنسی بنیادوں پر مُرتب کیا گیا تو اس سے بیش بہا ماضی کی معلومات ملیں۔ وہ تہذیبیں جو اب تک زمین میں مدفون تھیں۔ وہ تاریخ کا موضوع بنیں۔

قدیم عہد کی عمارات اور کھنڈرات کی تحقیق سے فنِ تعمیر میں انسانی علم کے بارے میں پتہ چلا مثلاً احرامِ مِصر کی عمارتیں آج بھی دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہیں۔ جب پہلے احرام کی بنیاد رکھی گئی۔ تو وہ ریت میں دھنس گیا۔ اس کے بعد مِصر کے ماہرِ تعمیرات نے پہلے مضبوط پلیٹ فام کی بنیاد رکھی تاکہ وہ عمارت کے بوجھ کو برداشت کر سکے۔ احراموں کی تعمیر سے قدیم مِصر کی تہذیب کا اندازہ ہوتا ہے۔ جو نہ صرف فنِ تعمیر بلکہ ریاضی اور جیومیٹری میں بھی ماہر تھے۔ اُنہوں نے Mummification  کے ذریعے موت کا مُقابلہ کیا کہ وہ دوبارہ اس دُنیا میں آئیں گے اور روزمرّہ کی زندگی گزاریں گے۔

انسانی تاریخ میں قوموں کے درمیان جنگیں ہوتیں رہی ہیں۔ اس لیے ہر قوم میں جنگجو افراد کی عزت ہوتی تھی۔ کیونکہ یہ نہ صرف اپنی قوم کا دفاع کرتے تھے بلکہ دوسری قوموں پر حملے کر کے اُن کی زمینوں پر قبضہ کرتے تھے اور مالِ غنیمت کو لُوٹ لاتے تھے۔ اس لیے جنگجو افراد کو اُن کی بہادری اور شجاعت پر معاشرے میں اعلیٰ مقام دیا جاتا تھا۔ جیسے ہندوؤں میں کشتری ذات کا فرض تھا۔ کہ وہ جنگ کرے۔ یورپ میں نائٹس کا طبقہ بھی جنگجو ہونے کی وجہ سے ممتاز تھا۔ اس لیے قدیم عہد میں ہر قوم اپنے افراد کو صحت مند اور طاقتور دیکھنا چاہتی تھی۔ تا کہ وہ جنگ کے میدان میں ثابت قدم رہیں۔

قدیم عہد کے حکمرانوں کو اِس پر فخر تھا کہ اُنہوں نے جنگوں میں فتوحات حاصل کیں اور دشمنوں کا قتلِ عام کیا۔ اپنے ان کارناموں کو اِنہوں نے پتھر کی سِلوں پر لکھوا کر نصب کرایا۔ چونکہ تاریخ نویسی پر ان کی اجارہ داری تھی۔ اس لیے ظُلم اور بربریت کے واقعات ان کے کارنامے بن گئے اور تاریخ میں اِنہیں گریٹ بنا کر پیش کیا گیا۔ جب کہ حقیقت میں یہ ہیروز نہیں بلکہ تاریخ کے مجرم ہیں۔

تاریخ میں تبدیلی کا ایک اہم ذریعہ لوگوں کی اہمیت ہے۔ لوگ ایک جگہ سے دوسرے جگہ اُس وقت ہجرت کرتے تھے، جب قحط، خشک سالی، وبائیں اور بیرونی حملوں کا خوف ہوتا تھا۔ ہجرت کا عمل بڑا دُشوار اور بڑا جان لیوا ہوتا تھا۔ مثلاً جب چین سے قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے کُشن قبیلے نے ہجرت کی اور ازبکستان میں آ کر آباد ہوا۔ تو اُنہوں نے ایک بڑی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔

کُشن خاندان کے حکمرانوں نے افغانستان اور پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی۔ اُنہوں نے بُدھ مذہب اختیار کر لیا۔ حکمراں کنشک کے عہد میں ہندوستان میں بُدھ مذہب کے ماننے والوں کی کئی کانفرنسیں ہوئیں، جن میں چین اور جنوب مشرق ایشیا کے لوگوں نے شرکت کی۔ اِن مذہبی اجتماعات میں بدھ مَت دو فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک مَہایان یعنی بڑے پہیے والا اور دوسرا بُنیان یعنی چھوٹے پہیے والا۔ اس عہد میں بُدھ مَت وسعتِ ایشیا، افغانستان، کشمیر، سندھ اور شمال مغربی ہندوستان میں پھیل گیا۔

تاریخ میں کلچر اور تہذیب قوموں کی شناخت کی علامات رہیں ہیں۔ کلچر قبائل یا برادریوں میں پرورش پاتا ہے، جو پہاڑوں یا گھنے جنگلوں میں آزادانہ زندگی گزارتے تھے۔ اس لیے ان کی عادات اور سوچ میں بہت کم تبدیلی آتی تھی اور یہ اپنے قبائل یا برادری کے رسم و رواج کے پابند رہتے تھے۔ یہ صورتحال آج بھی برِصغیر کے قبائل اور برادریوں کی ہے، جو اپنے رسم و رواج کے پابند ہیں۔

اس کے مقابلے میں تہذیب شہروں میں پیدا ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ برابر بدلتی رہتی ہے۔ بلکہ کئی کلچر بھی تہذیب کا حصہ ہو جاتے ہیں۔ تہذیب کے نام پر دنیا میں تعصبات اور نفرتیں پیدا ہوئیں۔ جنگیں لڑی گئیں اور خونریزی کے ذریعے تہذیبی برتری کو ثابت کیا گیا۔

تاریخ کی تشکیل میں سیاست ، علم و اَدب، آرٹ، مجسمہ تراشی اور نئے فلسفیانہ افکار اور خیالات ہوتے ہیں، جو تاریخ کو ماضی سے نکال کر مُستقبل کی جانب لے جاتے ہیں۔ اس لیے تاریخی عمل کو سمجھنے کے لیے انسانی جذبات، اُس کی فطرت اور اُس کے خیالات اور سوچ کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ تاریخی عمل میں آب و ہوا کا بھی بڑا کردار ہے کہ جس ماحول میں انسان فطرت سے مقابلہ کرتا ہے اور اپنے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں