1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخعالمی

تاریخ نویسی اور برطانوی سامراج

15 دسمبر 2024

المیہ یہ ہے کہ تقسیم کے بعد پاکستان کی تاریخ جب نظریاتی ہوئی تو اس میں نئے افکار کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اس لیے پاکستان میں تاریخ کا مضمون غیر دلچسپ ہو کر اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی تصویر: privat

ہر قوم اپنے ماضی کی تاریخ لکھ کر پرانے ادوار اور واقعات کو محفوظ کرتی ہے۔ لیکن تاریخ نویسی پر حکمراں طبقے کا قبضہ ہوتا ھے جو اس کے بیانیے کو اپنی شہرت اور مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس تاریخ نویسی میں عام لوگوں کو شامل نہیں کیا جاتا ھے۔

جب یورپی ممالک نے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں پر فتوحات حاصل کیں تو ان حملوں کو جائز ثابت کرنے کے لیے، جو دلائل دیے اُن میں سے ایک یہ تھا کہ چونکہ یہ ممالک تہذیبی طور پر پسماندہ ہیں اس لیے ان کو یورپی معیار کے مطابق مہذب بنایا جائے۔ دوسری دلیل یہ تھی کہ یہ ممالک اپنی تہذیب کو بھول چکے ہیں۔ ان کے ریاستی ادارے بدعنوانیوں اور رشوت ستانی میں مبتلا ہیں۔ اس لیے یورپی اقوام کا یہ فرض ہے کہ ان کو ذوال سے نکالے اور بدعنوانیوں سے پاک کرے۔ تا کہ یہ اس قابل ہوں کہ  اپنے وسائل کو استعمال کریں۔ تیسری دلیل یہ تھی کہ ان اقوام کی کوئی تاریخ نہیں ہے اور جب کوئی قوم اپنی تاریخ بھول جائے یا اس سے محروم ہو جائے تو نہ صرف اس کی شناخت ختم ہو جاتی ہے بلکہ اس کے ماضی کا سرمایہ بھی گم ہو جاتا ھے اور اسے اپنے وجود پر فخر کرنے کے لیے کوئی ذریعہ میسر نہیں رہتا۔جب جرمن فلسفی ہیگل نے برلن یونیورسٹی میں فلسفہ تاریخ پر لیکچرز دیے تو اس نے انڈیا کے بارے میں کہا کہ اس کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک حکمراں خاندانوں کا تبدیل ہونا تاریخ میں اہم واقعہ نہیں ہوتا کیونکہ حکمراں بدل جاتے ہیں مگر نظام حکومت برقرار رہتا ہے۔ لہٰذا اس کی دلیل کے مطابق بھارت کی تاریخ ایک چکر میں گردش کرتی رہتی ہے اور واقعات اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں۔ تاریخ کے بارے میں یہی خیال ہندوں مفکرین کا بھی تھا جس کی وجہ سے انہوں نے تاریخ کو نہیں لکھا اور تاریخی واقعات کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ افریقہ کے بارے میں تو ہیگل کا کہنا تھا کہ یہ ایک تاریک براعظم ہے۔ اسی دلیل کو برطانوی مورخ ٹریور روپر نے بھی دہرایا تھا۔ افریقی براعظم کی تاریکی اس وقت ختم ہوئی، جب اہل یورپ نے یہاں غلامی کا کاروبار شروع کیا اور افریقہ کے وسائل کی لوٹ مار کی۔ ان مفادات کی وجہ سے افریقہ کے قبائل ان کے وسائل اور ان میں بولی جانے والی زبانوں کو دریافت کیا گیا۔

ہیگل کے مطابق قوموں میں تاریخی عمل اہم کردار ادا کرتا ھے۔ یہ تہذیب و تمدن کی نشوونما کرتا ھے۔ ہم جوئی کو فروغ دیتا ہے اور دنیا کے جغرافیہ کو دریافت کرنے کا حوصلہ دیتا ھے۔ لہٰذا ہیگل کے نزدیک تاریخی عمل کے ذریعے خدا کے منصوبوں کو پورا کیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کو پورا کرنے کے لیے یورپی اقوام سب سے آگے ہیں جبکہ ایشیا اور افریقہ کے ممالک ذوال شدہ ہو چکے ہیں۔ اس لیے ان میں وہ صلاحیت، ذہانت اور توانائی نہیں ہے جو فرسودہ روایات سے نجات پا کر جدید تہذیب کو تشکیل کرے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کو سمجھنے کے لیے اُس کی تاریخ لکھنی شروع کی۔ پہلا مورخ جس نے ہسٹری آف برٹش انڈیا لکھی وہ لندن میں کمپنی کا ملازم تھا اور ابھی ہندوستان نہیں آیا تھا۔ اس کا نام جیمز مل تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں ہندو مذہب اور ان کی تہذیب پر سخت تنقید کی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں مغل دورِ حکومت کے بارے میں اس کی رائے مُثبت ہے۔ کیونکہ یہ تاریخ کمپنی کے نقطۂ نظر سے لکھی گئی۔ اس لیے اس میں  دلیل دی گئی یے کہ ہندوستان کے لوگ خود حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ذات پات کی وجہ سے ان کا معاشرہ کئی ذاتوں میں بٹا ہوا ہے۔ اس لیے یہ ہر حملہ آور سے شکست کھا جاتے ہیں اور حملہ آور فاتح بن کر ان پر حکومت کرتا ہے۔ اس دلیل کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کو بھی فاتح ہونے کی حیثیت سے حکومت کرنے کا حق ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ لکھنے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل تھے۔ انہیں منتظمین مورخ کہا جاتا ھے۔ اِن میں سے ایک سر جون میلکیم  اور دوسرے مونٹ اسٹورٹ الفینسٹون  تھے۔ انہوں  نے بھی ہندوستان کی تاریخ لکھی۔ چونکہ یہ دونوں ہندوستان میں کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار تھے۔ اس لیے ان کی تاریخوں میں واقعات کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے تجربات ومشاہدات بھی شامل ہیں۔

ابتدائی دور کی یہ تاریخیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازموں کو پڑھائی جاتی تھیں۔ اس لیے  انہوں نے ہندوستان کی سوسائٹی کو ان نظریات کی روشنی میں دیکھا۔ جب انڈین سول سروس کے امتحانات شروع ہوئے تو یہ کتابیں نصاب کا حصہ تھیں۔ لہٰذا ہندوستان میں آنے والے کمپنی کے عہدیدار ذہنی طور پر ہندوستان کے بارے میں نسلی اور تہذیبی تعصب رکھتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ جب اہلِ ہندوستان کو تاریخ سے محروم کر دیا گیا تو ان کے پاس مزاحمت کے لیے کوئی نظریہ نہیں تھا۔ کمپنی کے ملازمین کو انتہائی بااختیار بنا دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ہندوستانیوں کو کمتر سمجھتے تھے۔ مثلاً انگریز ملزم کا مقدمہ انگریز مجسٹریٹ ہی کی عدالت میں چلا کرتا تھا۔ انگریز مجرموں کے لیے علیحدہ سے جیل ہوا کرتی تھی۔ جو انگریز شادی شدہ تھے وہ اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کے لیے انگلستان بھیج دیا کرتے تھے۔ ان کے اپنے کلب ہوا کرتے تھے، جن میں ہندوستانیوں کا داخلہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ اپنے گھر اور محفلوں میں وہ ہندوستانیوں کو دعوت نہیں دیتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کی عورتیں ہندوستانیوں کے سامنے رقص کریں۔

تاریخ نویسی میں اس کے بعد کئی تبدیلیاں آئیں۔ کمپنی کی حکومت سے جب ہندوستان تاج برطانیہ کے ماتحت ہوا تو تاریخ نویسی میں بھی ایک بدلاؤ آیا۔ جب ہندوستان میں آزادی کی تحریک چلی تو ہندوستانی مورخوں نے قوم پرستی کے جذبے کے تحت تاریخ لکھ کر اپنے قدیم ماضی عہدے وسطیٰ اور دورِ حاضر کو نئے سرے سے دریافت کیا اور وہ قوم جسے اب تک تاریخ سے محروم رکھا گیا تھا، اس کے مورخوں نے تاریخی سرمائے کو بڑھا کر اس میں بے حد اضافہ کر دیا۔ المیہ یہ ہے کہ تقسیم کے بعد پاکستان کی تاریخ جب نظریاتی ہوئی تو اس میں نئے افکار کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اس لیے پاکستان میں تاریخ کا مضمون غیر دلچسپ ہو کر اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں