1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخعالمی

تاریخ نویسی اور لیوپولڈ فان رانکے

25 اگست 2024

رانکے کے نقطہ نظر میں ایک مورخ کو تاریخی شخصیات یا واقعات پر کوئی اخلاقی فیصلہ نہیں دینا چاہیے۔ اس جرمن مورخ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ سرکاری دستاویزات پر مبنی تاریخ عوام کے بجائے صرف حکمراں طبقے کے خیالات کی عکاس ہو گی۔

ڈاکٹر مبارک علی تصویر: privat

کبھی جرمنی کے تعلیمی اداروں میں تاریخ کا مضمون نہیں پڑھایا جاتا تھا۔ لیکن تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ماضی کو جاننے کی بڑی خواہش تھی۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے 1737ء میں گوٹنگن یونیورسٹی میں تاریخ کا شعبہ قائم کیا گیا۔ یونیورسٹی کی بنیاد گللڈ سسٹم پر رکھی گئی تھی، جس میں ماسٹر شاگردوں کی تربیت کرتا تھا۔ جب ماسٹر کا انتخاب ہوتا تھا تو وہ اپنے ہُنر کے اظہار کے لیے کوئی نئی ایجاد پیش کرتا تھا۔ اگر کمیٹی اُسے منظور کر لیتی تھی تو یہ ماسٹر پیس کہلاتا تھا۔ آگے چل کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی جرمنی سے شروع ہوئی اور پھر امریکہ اور دوسرے پورپی ملکوں میں اسے اپنایا گیا۔

گوٹنگن میں شعبہ تاریخ کے بعد اس کے مورخوں نے تاریخی دستاویزات، مخطوطات، ڈائریاں، خط وکتابت اور دوسرے ماخذوں کو جمع کیا تا کہ ان کی مدد سے تاریخ لکھی جائے۔

اُنیسیوی صدی میں ایک اہم تبدیلی آئی کہ جرمن ریاستوں کے حکمرانوں نے اپنی خفیہ اور سرکاری دستاویزات کو مورخوں کے لیے کھول دیا۔ ان میں حکومتوں کے درمیان معاہدے، خط و کتابت، سیاسی رپورٹیں، سازشوں کے بارے میں معلومات وغیرہ بھی شامل کیں۔ ان دستاویزات کے مطالعہ کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ریاستوں کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔

لیوپولڈ فان رانکے کی ابتدائی تربیت علم لسانیات میں ہوئی۔ اس کی اہمیت یہ تھی کہ جب پرانے مخطوطات کو پڑھا جاتا تھا تو ماہرِ لسانیات اندازہ لگا لیتا تھا کہ کہاں کاتِب نے اپنی طرف سے مخطوطے میں اضافہ کیا ہے۔ کیونکہ مخطوطے کی اصل تحریر اور کاتِب کی تحریر میں وقت کے لحاظ سے فرق ہوتا تھا۔ اس لیے ماہرِ لسانیات مخطوطے کی غلطیاں نکال کر پھر شائع کرتے تھے۔ تاکہ یہ مورخوں کے لیے مُستند حوالہ ہو جائے۔

تاریخ کے بارے میں لیوپولڈ فان رانکے کا نقطہ نظر یہ تھا کہ واقعات کو جیسا کہ وہ ہوئے ہیں بغیر کسی ردوبدل کے لکھنا چاہیے۔ کیونکہ اس کے زمانے میں سرکاری دستاویزات آ گئیں تھیں۔ اس لیے اس کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اصل تاریخ ان دستاویزات ہی کی مدد سے لکھی جا سکتی ہے۔ اُس نے ذاتی طور پر بھی تاریخ لکھتے وقت تاریخی دستاویزات کا سہارا لیا۔ وینس میں اُسے سرکاری دستاویزات آسانی سے مِل گئیں کیونکہ وہاں کوئی مستحکم حکومت نہیں تھی۔ اس کے بعد روم میں اُس نے قدیم دستاویزات کا مطالعہ کیا۔ ویٹیکن کی لائبریری میں اسے اجازت نہیں ملی کیونکہ وہ پروٹسٹنٹ تھا۔ لیکن دوسرے ذرائع سے اُسے جو کچھ ملا اس کے مواد پر اس نے ہسٹری آف پولیس لکھی۔

جب بحیثیت مورخ کے اُس کی شہرت ہوئی تو اسے برلن یونیورسٹی میں تاریخ کے اُستاد کی حیثیت سے ملازمت دی گئی۔ برلن یونیورسٹی کا قیام 1810عیسوی میں عمل میں آیا تھا۔ پروشیا کی ریاست اس کی سرپرست تھی۔ بنیادی طور پر یہ قدامت پرست نظریات کا مرکز تھی۔ رانکے اپنے نظریات کی وجہ سے یونیورسٹی میں قابل قبول ہوا اور پروفیسر کی حیثیت سے اس نے ساری عمر یونہی گزاری۔ اس جرمن مورخ نے یونیورسٹی میں سیمینار کا نظام بھی متعارف کرایا۔ اس میں 10سے 12 اسکالرز میز کے اردگرد بیٹھ جاتے تھے اور اپنے تحقیقی مقالات تنقید کے لیے پیش کرتے تھے۔ اس بحث و مباحثہ سے ان کی تربیت ہوتی تھی۔

رانکے کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مورخ کو تاریخی شخصیتوں یا واقعات پر کوئی اخلاقی فیصلہ نہیں دینا چاہیے۔ رانکے پر اعتراض یہ تھا کہ سرکاری دستاویزات کی روشنی میں اگر تاریخ لکھی جائے تو یہ حکمراں طبقے کے خیالات کو ظاہر کرے گی اور عوام کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔ جب کہ اسی کے ایک ہم عصر لارڈ ایٹکن کا کہنا تھا کہ مورخ کو تاریخ لکھتے وقت اخلاقی قدروں کی بنیاد پر فیصلہ دینا چاہیے۔ اگر ماضی میں کوئی حکمران اپنے مظالم اور جرائم کی سزا نہ پا سکا کیونکہ وہ طاقتور تھا تو اب مورخ کے لیے لازمی ہے کہ اس کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سزا سنائے۔

لارڈ ایٹکن کی جب رانکے سے آخری ملاقات ہوئی تو رانکے اس وقت 83 سال کا تھا۔ اُس کی نگاہ بھی کمزور تھی اور صحت مند بھی نہیں تھا۔ لارڈ ایٹکن  کا خیال تھا کہ کچھ عرصے بعد اُسے رانکے کی موت کی خبر ملے گی۔ لیکن وہ 92 سال تک زندہ رہا اور اس عرصے میں اُس نے 17جلدوں میں یونیورسل ہسٹری لکھی۔ یہ اس کے عروج کا وقت تھا۔ جرمنی کی تمام یونیورسٹیوں میں تاریخ کے شعبے میں اس کے شاگرد پھیلے ہوئے تھے۔ اُس کی 90 سالہ سالگرہ پر تمام جرمنی میں عام تعطیل ہوئی۔ اس نے تاریخ میں جو کچھ تبدیلیاں کیں اب اُسے تاریخ کا انقلاب کہا جاتا ہے۔

اگرچہ رانکے نے تاریخ نویسی کے اُصول و ضوابط مرتب تو کیے مگر اس نے تاریخ کا کوئی ایسا نظریہ پیش نہیں کیا، جو عوام میں شعور پیدا کرتا اور وہ اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کرتے۔ رانکے قدامت پرست تھا اور پروشیا کی ریاست کا وفادار۔ اس لیے اُس نے تاریخ کو ریاست کی دستاویزات تک محدود رکھا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں