تاریخ کی خاموشی
16 نومبر 2025
بعد میں آنے والے مورخین اصل واقعات کو تلاش کر کے تاریخ کی تکمیل کرتے ہیں۔
رومی تاریخ کے مختلف ادوار کو کئی مورخوں نے لکھا ہے۔ اس کی تاریخ اس وقت تضادات کا شکار بنی جب 313 عیسوی میں قسطنطین نے عیسائیت قبول کی تو پیگن اور عیسائیت میں تصادم ہوا، جو ایک طویل عرصے تک جاری رہا۔ رومی سوسائٹی میں یہ روایت تھی کہ یہ اپنی اہم شخصیتوں کے ذریعے ان کی یادگاریں تعمیر کراتے تھے، تاکہ ان کے کارنامے زندہ رہیں۔ اگر ان پر تنقید ہوتی تھی تو اس کو بھی بیان کیا جاتا تھا۔
اس موضوع پر امریکی مورخ "Charles W. Hendricks کی کتاب "History of Silence" قابل ذکر ہے۔ اس نے ایک واقعہ بيان کيا، جس سے تاریخ کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک رومی مورخ "جوینی" نے ایک امیر کے وعدے پر کہ وہ اسے معاوضہ دے گا۔ اس نے تاریخ مکمل کر کے جب امیر شالامار سے وعدے کے مطابق معاوضہ چاہا ہے تو اس نے انکار کر دیا۔ اس پر جوینی نے جہاں جہاں شالامار کے نام تھے وہ مٹا دیے اور کتاب کی نئے سرے سے تدوین کی۔ جس کی وجہ سے شالامار کی شہرت کے بجائے بدنامی ہوئی۔
رومی شہنشاہ ٹراجن کے عہد میں رومی جرنل کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس میں اس کی تعریفیں اور کارنامے نقش کیے گئے تھے۔ لیکن اس کے کچھ ہی سال بعد سازش کے ذریعے اس کے مجسمے کو توڑ دیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ اس کی یاد کو فراموش کر دیا جائے۔ لیکن جب اس کا بيٹا اقتدار میں آیا، تو اس نے دوبارہ سے اپنے باپ کا مجسمہ بنوایا۔ اس روایت کا مقصد یہ تھا کہ اہم رومن شخصیتوں کو یاد رکھا جائے۔ تاریخ انہیں فراموش نہیں کرے۔ لہذا سیاسی نشیب و فراز میں ان کی یادگاروں کو برباد بھی کیا گیا۔ لیکن پھر وقت بدلنے کے ساتھ دوبارہ سے ان کی یادگاریں تعمیر ہوئیں اور ان کے نام کو زندہ رکھا گيا۔
سن 4 عیسوی رومی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ رومی ریاست تو مذہبی ہو گئی تھی لیکن رومی سینیٹرز اور عوام عیسائی نہیں ہوئے تھے۔ عیسائیوں نے ان کو پیگن کہا۔ یہ اصلاح حقیرانہ تھی کیونکہ یہ عیسائی عقیدے کے خلاف تھے۔ پیگن مذہب کے تحت جو رسم و رواج تھے وہ تہوار تھے، وہ بدستور منائے جاتے تھے۔ عیسائی ریاست اپنی طاقت کے باوجود لوگوں کے مذہب کو نہیں بدل سکی۔ سینيٹ میں بھی اکثریت پیگن مذہب کے ماننے والوں کی تھی۔ جس کی وجہ سے رومی سوسائٹی دو مذاہب میں تقسیم ہو گئی۔ لوگوں کو عیسائی بنانے کے ليے ریاست کی طاقت اور اثر و رسوخ کو استعمال کیا گیا۔ عیسائی مذہب کو چرچ اور ریاست کی حمایت حاصل تھی۔ ان دونوں طاقتوں کو پیگن مذہب کے خلاف استعمال کر کے اس کے اداروں کو ختم کیا گیا۔
پیگن، فلسفی، ادیب و شاعر اور آرٹسٹ ان کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کیں گئیں۔ چونکہ اس تصادم میں پیگن لوگوں کے پاس کوئی طاقت نہیں تھی جبکہ عیسائی ریاست کے پاس فوجی قوت تھی۔ اس لیے چرچ اور ریاست نے مل کر پیگن مندروں کو توڑا، ان کے دیوی، دیوتاؤں کو پاش پاش کیا۔ انتہاپسند عیسائیوں نے پیگن فلسفیوں کو لیکچرز دینے سے روکا۔ اس کی مثال اسکندریہ میں ہائی پیشیا کی ہے، یہ ایک خاتون فلسفی تھی جس کا باپ اسکندریہ کی لائبریری میں ڈائریکٹر تھا۔ وہ لائبریری میں لیکچر دیتی تھی۔ ایک دن جب وہ لیکچر دینے کے ليے آئی تو مذہبی انتہا پسندوں کے ایک مجمعے نے اس پر حملہ کر کے پتھر مار مار کر اسے قتل کر دیا۔ پھر اس کی لاش کو چرچ میں لے جا کر جلایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رومی سلطنت مذہبی تو ہو گئی مگر فلسفہ، علم و ادب کم ہوتا گيا۔
پیگن مذہب کو ماننے والے نہ صرف سیکولر تھے بلکہ وسیع نظر والے بھی تھے۔ ان کے عہد میں کلچر کی نشوونما ہوئی اور ان کی بہت سی سماجی رسومات کو چرچ نے بھی اختیار کر دیا۔ رومی سوسائٹی سیاست اور مذہب کی اس تبدیلی میں خونریزی اور فسادات سے گزری اور آخر میں مذہبی انتہا پسندی کے جال میں ایسی جکڑی کہ اس کی تمام صلاحیتیں ختم ہو گئیں۔
تاریخ اس وقت تک باعمل رہتی ہے جب تک سوسائٹی میں حرکت ہو۔ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ہو لیکن اگر سوسائٹی بے حرکت اور بے حس ہو جائے تو تاریخ کے پاس بھی کچھ کہنے کو نہیں رہتا ہے۔ اور اس طرح وہ بھی خاموش ہو جاتی ہے۔