1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھولی ہوئی تاریخ کی واپسی

26 اکتوبر 2025

ماضی کے تمام واقعات تاریخ میں جگہ نہیں پاتے ہیں۔ اس میں تاریخ نویس کی پسند ناپسند اور سیاسی حالات کا کردار ہوتا ہے۔ اس وجہ سے بعض اہم واقعات اور شخصیتیں تاریخ میں گم ہو جاتی ہیں اور بعد میں ان کو تاریخ کا حصہ بناتے ہیں۔

تصویر: privat

مورخ بعض واقعات کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے ہیں اور تاریخ میں انہیں گمنام کر دیتے ہیں۔ ہمارے پاس اس کی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً جب 1791 میں فرانس کی انقلابی حکومت نے غلامی کا خاتمہ کر دیا تو اس کی کالونی سینٹ ڈومنگو میں جہاں افریقی غلاموں کی اکثریت تھی، نے غلامی کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔ یہاں پر کھیتوں کے سفید فام مالکان اقلیت میں تھے۔ انہوں نے فرانس کی حکومت پر زور ڈالا کہ غلامی کے خاتمے سے ان کی سیاسی اور معاشی حالت خراب ہو جائے گی جبکہ غلاموں نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ اس پر مالکوں اور غلاموں میں جنگ کا آغاز ہوا۔

جب 1799 میں نپولین اقتدار میں آیا تو اس نے دوبارہ سے غلامی کو بحال کر دیا۔ غلاموں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے فرانس نے اپنی فوجیں بھیجیں۔ بغاوت کا رہنما توسان لوورتو (Toussaint Louverture) تھا۔ اس نے سولہ یا سترہ جنگوں میں فرانس کو شکست دی۔ 1804 میں نپولین نے ہیٹی کی آزادی کو قبول کر لیا۔ لیکن سفید فام مالکوں کے اس فیصلے کو بھی مان لیا کہ چونکہ غلام ان کی نجی ملکیت ہیں اس لیے انہیں اپنی آزادی کی قیمت ادا کرنی ہو گی۔ یہاں پر یہ نہیں سوچا گیا کہ ان غلاموں کو زبردستی یہاں لایا گیا تھا۔ ان کی محنت و مشقت کا کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا تھا۔مگر ہیٹی کے غلاموں نے اپنی آزادی کا سودا کرتے ہوئے فرانس کی حکومت کو معاوضہ دینا قبول کیا۔

Haiti کا یہ انقلاب اپنی نوعیت کا پہلا انقلاب تھا، جس میں افریقی غلاموں کو کامیابی ہوئی اور انہوں نے اپنی آزاد حکومت قائم کی۔ تاریخ کی یہ ستم ظریفی ہے کہ یورپی اور امریکی مورخوں نے اس انقلاب کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ اس کی تفصیل کے بارے میں اس وقت لوگوں کو علم ہوا جب کیریبیئن جزائر کے ایک مورخ C.R.L JAMES نے بلیک جیکوبن کے عنوان سے اس انقلاب کی تاریخ لکھی۔ انہوں نے اس انقلاب کی مزید تفصیلات کو دستاویزات کی نئی دریافت کے بعد بیان کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ انقلاب گمنامی سے نکل کر تاریخ کا حصہ ہو گیا اور ایک بھولا ہوا تاریخ کا باب نئے سرے سے لکھا گیا۔

یہ بھی تاریخ میں ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے وقت میں ہیرو ہوتا ہے مگر بدلتے ہوئے حالات میں وہ مجرم قرار پاتا ہے اور تیسری بار پھر وہ ایک نئے روپ میں سامنے آتا ہے۔ اس کی مثال انگلستان کے مشہور سیاست دان Oliver Cromwell کی ہے، جس نے 1642 سے 1651 چارلس اول کے ساتھ جنگ کی تھی، جو انگلش سول وار کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں بادشاہ کو شکست ہوئی اور پارلیمنٹ نے اس کو سزائے موت دی۔ اس کے بعد Cromwell نے انگلستان کے پروٹیکٹر کا عہدہ سنبھال لیا۔ اس کی وفات کے بعد انگلستان میں دوبارہ سے 1660 میں بادشاہت بحال ہو گئی۔ نئے بادشاہ چارلس دوئم کے حکم سے Cromwell کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دی گئی۔ Cromwell اس وقت تک بدنام رہا جب تک Thomas Carlyle (d. 1881) نے اس کے کارناموں پر اس کی سوانح لکھی۔ اس نے Cromwell کی شہرت کو بحال کیا۔ اب Cromwell کا مجسمہ Westminister میں نصب ہے۔

تاریخ میں انقلابی اور آمرانہ حکومتیں اپنے مخالفین کو تاریخ کے صفحات سے غائب کرتی رہی ہیں۔ اس کی ایک مثال Leon Trotsky کی ہے جس نے 1917 کے روسی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسٹالن کے اقتدار میں یہ فرار ہو کر میکسیکو چلا گیا اور وہاں پناہ لی۔ اسٹالن کے ایک Agent نے اسے میکسیکو میں قتل کیا۔ اس کے بعد اس کا نام روسی انقلاب کی تاریخ سے مٹا دیا گیا۔ لیکن Trotsky بحثیت ایک دانشور کے اپنی شہرت رکھتا ہے اور بائیں بازو کے کمیونسٹوں کی ایک تعداد اس کے نظریات کی حامی ہیں۔

چین میں اس کی مثال Liu Shaoqi کی ہے جو انقلاب کے بعد چین کا صدر بنا۔ جب اس کے ماؤ سے اختلافات ہوئے تو یہ اپنے خاندان کے ہمراہ جہاز میں سوار ہو کر فرار ہوا مگر جہاز ایک حادثے کا شکار ہوا اور پورا خاندان مارا گیا۔ Mao کی مشہور Red Book، جس میں اس کے اقوال درج ہیں، کا پیش لفظ Liu Shaoqi نے لکھا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد لاکھوں مرتبہ شائع ہونے کے بعد بھی اس کتاب اشاعت واپس لی گئی اور دوبارہ نئے پیش لفظ کے ساتھ چھاپی گئی۔ Liu Shaoqi کا نام چین کی تاریخ سے نکال دیا گیا اور وہ چین کے صدر سے گمنام ہو کر کسی شہرت کا حامل نہ رہا۔

حکومتیں تاریخ سے اپنے ناقدوں اور مخالفوں کے نام مٹا کر انہیں گمنام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی ہمیں ایسے کئی نام ملتے ہیں، جو مسلم لیگ کی سیاست سے مطمئن نہیں تھے اور تقسیم سے پہلے اپنے سیاسی نظریات سے عوام میں مقبول تھے۔ ان میں خان غفار خان کا نام سامنے آتا ہے، جنہوں نے خدائی خدمت گار کے نام سے ایک جماعت بنائی جو عدم مساوات کی حامی تھی۔ خان غفار خان نے خیبر پختون خواہ میں تعلیمی ادارے قائم کر کے عام لوگوں کو علم کے حصول کا موقع دیا۔ غفار خان نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ برطانوی دور اور پاکستان میں قید میں گزارا۔ جیل کی تمام صعوبتوں کو برداشت کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ان کا نام نہیں ہے لیکن عام لوگوں میں نہ صرف وہ مقبول ہیں بلکہ ان کا بے حد احترام کیا جاتا ہے۔

1971 کی جنگ کے بعد پاکستان کی تاریخ سے بنگلہ دیش کا نام خارج کر دیا گیا۔ مجیب الرحمٰن کو دشمن قرار دیا گیا۔ 1971 کی جنگ کو جائز قرار دیتے ہوئے اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں واقعات اور شخصیتوں کے روپ بدلتے رہتے ہیں۔ مورخ سچ کی تلاش میں رہتا ہے مگر جب سچ پر کئی غلاف لپیٹ دیے جائیں تو اس کی مثال کئی کپڑوں کی کئی تہوں میں لپٹی ہوئی  ایک مصری Mummy کی سی ہو جاتی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں