حلب میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں حکومتی فوج کی طرف سے کی جانے والی تازہ کارروائیوں میں ایک ہفتے کے دوران 141 شہری لقمہ ہلاک ہو گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہلاک شدگان میں اٹھارہ بچے بھی شامل ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے حوالے سے بتایا ہے کہ روسی اور شامی فوج کی فضائی کارروائیوں میں مشرقی حلب میں تازہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ایک ہفتے کے دوران ہی مختلف پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں کم ازکم ایک سو اکتالیس شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
لندن میں قائم اس غیر سرکاری تنظیم ’سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق حلب میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر تازہ شیلنگ اور فضائی حملوں کی وجہ سے اٹھارہ بچے بھی لقمہ اجل بنے ہیں۔ حلب میں شامی اور روسی جنگی طیاروں نے گزشتہ منگل کے دن سے اپنے حملوں کو بحال کر دیا تھا، جس کی وجہ سے سینکڑوں شامی زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ آبزرویٹری کے مطابق اس تازہ عسکری کارروائی میں ستاسی باغی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
آبزرویٹری نے یہ بھی کہا ہے کہ باغیوں کی طرف سے حکومتی اہداف پر کیے جانے والے حملوں میں بھی سولہ شہری ہلاک ہوئے ہیں، جن میں دس بچے بھی شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ باغیوں نے یہ حملے مغربی حلب میں کیے۔
آبزرویٹری کے مطابق گزشتہ منگل کے دن سے بحال ہونے والی اس تازہ فوجی کارروائی میں مسلسل بمباری کا سلسلہ جاری ہے، جس میں شہری علاقوں اور طبی مراکز میں بھی کوئی امتیاز نہیں کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے مشرقی حلب میں فضائی بمباری کی وجہ سے تمام مرکزی ہسپتال بری طرح متاثر ہو گئے تھے، جس کے باعث زخمیوں کے علاج میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
شام میں انسانی بحران کی تکلیف دہ صورتحال
فائربندی سے بھوک کے شکار پریشان حال شامیوں کو عارضی طور پر فائدہ ضرور ہو گا کیونکہ شام کے محصور علاقوں میں پھنسے انسانوں کی صورتحال المیے کی سی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
حلب کے بچے
شام میں حلب بین الاقوامی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب وہاں انخلاء کا عمل جاری ہے۔ یہ تباہ حال شہر جنگ کی ہولناکیوں کی علامت ہے۔ شہر کے مشرقی حصے میں نہ تو پانی ہے، نہ اشیائے خورد نوش اور نہ ادویات۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو سر پر چھت بھی میسر نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اس شہر کے ایک لاکھ بچوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
چھ لاکھ انسان گھیرے میں
یہ تصویر مضایا کی ہے۔ اسی طرح کے اٹھارہ دیگر شہر بھی بیرونی دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق محصور علاقوں میں چھ لاکھ افراد آباد ہیں، جو تنازعے کے فریقین کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر علاقے اسد حکومت کے زیر قبضہ ہیں۔ دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر ان علاقوں میں امددی اشیاء تک نہیں پہنچائی جا سکتیں اور اسد حکام سے اجازت لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
مزاحمت کی علامت
داریا ان اوّلین شہروں میں شامل ہے، جہاں سے 2011ء میں اسد حکومت کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔ دمشق حکومت نے سالوں تک اس شہر کو گھیرے میں لیے رکھا، جس کی وجہ سے داریا کے باسی بھوک و افلاس کا شکار ہو گئے۔ صورتحال سے تنگ آ کر اگست میں باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے، جو ان کی ایک بڑی شکست تھی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press
ہسپتالوں میں ہنگامی حالت
شام کے زیادہ تر ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ممکن نہیں رہا۔ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نامی تنظیم کے مطابق، ’’مرہم پٹی کا سامان تو ایک طرف ہسپتالوں میں ادویات تک موجود نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے آپریشن تک کرنا ممکن نہیں رہا۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
کوئی جگہ محفوظ نہیں
گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران حلب کے محصور مشرقی حصے کے آٹھوں ہسپتالوں کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا پھر وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ابھی بھی کچھ ایسے ڈاکٹرز ہیں، جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کے بقول، ’’خود کو کہیں بھی محفوظ محسوس نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Leys
منقسم شہر
حلب حکومتی دستوں اور باغیوں کے مابین تقسیم ہے۔ باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ اسد حکومت اور روس کی جانب سے روزانہ ہی اس حصے میں بمباری کی جاتی ہے اور روزانہ ہی کئی عمارتیں اور گھر کھنڈر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران حلب میں سینکٹروں عام شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
ہر شے کی قلت
حلب میں صرف باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں ہی بنیادی اشیاء کی قلت نہیں ہے بلکہ حکومتی فورسز کے قبضے میں جو علاقے ہیں، وہاں کے باسی بھی ان سہولیات سے محروم ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ویرانی کیوں ہے؟
فضائی حملوں کے ڈر سے حلب کے شہری گھر سے باہر نکلنے کی ہمت کم ہی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس شہر میں عام زندگی گزارنا اب ممکن نہیں رہا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ایک بڑی سی جیل
شام میں تازہ فائر بندی سے عام شہریوں کی زندگی میں تھوڑی سی آسانی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ تاہم کسی کو یہ علم نہیں کے حالات کب تبدیل ہو جائیں۔ مقامی افراد کا خیال ہے کہ وہ ’’ایک بڑی سی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
9 تصاویر1 | 9
ادھر اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث ایک ملین افراد محاصرے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ چھ ماہ قبل ایسے افراد کی تعداد نصف ملین بتائی گئی تھی۔ تاہم جولائی کے بعد سے صرف حلب میں ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس خانہ جنگی میں پھنس کر رہ گئی ہے۔
اقوام متحدہ نے شام میں جاری اس بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والی انسانی المیے کی صورتحال کو انتہائی پریشان کن قرار دے دیا ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ شامی فوج شہریوں پر حملوں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کی مرتکب ہو رہی ہے۔ عالمی طاقتیں اس تنازعے کے پرامن حل کے لیے کوشاں ہیں۔