دریا کے کنارے جوگنگ، جنگل میں سائیکل سواری یا پھر پارک میں ورزش: اگر ورزش تازہ ہوا میں کی جائے تو صحت بخش ہوتی ہے۔ لیکن کیا آج کل کورونا کے دور میں بھی اس اصول پر عمل کیا جا سکتا ہے؟
اشتہار
بون کی ایک سنہری دوپہر، دریائے رائن کے پانی میں ہوا کے دوش پر لہریں بن رہی ہیں اور یہی پانی سورج کی کرنوں کو منعکس کرتے ہوئے بکھیر بھی رہا ہے۔ دریائے رائن کا شمار دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں ہوتا ہے لیکن آج کل یہاں سے بہت ہی کم بحری جہاز گزرتے ہیں۔ دوسری جانب رائن کے کنارے پر ہلچل زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ کنارے پر جگہ مختصر ہونے کے باوجود یہاں سائیکل سواروں، پیدل چلنے والوں، جوگرز اور چہل قدمی کرنے والوں کی بڑی تعداد دکھائی دے رہی ہے۔ اس صورتحال میں 'سوشل ڈسٹنسنگ‘ یا سماجی دوری کے اصول پر عمل کرتے ہوئے کم از کم لازمی فاصلہ کیسے رکھا جائے؟ رائن کے کنارے کچھ جگہیں ایسی ہیں، جہاں ان ضوابط پر عمل درآمد ناممکن ہے۔
جرمنی میں اچھا موسم یعنی اگر سورج چمک رہا ہو، تو بہت سے پارکوں اور سبزہ زاروں کا یہی حال ہوتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ دنیا بھر میں جیسے کہیں کووڈ انیس کی کوئی وبا موجود ہی نہیں۔
ہاتھ دُور رکھیں: کورونا وائرس کی وبا اور احتیاط
یورپ سمیت دنیا کے بے شمار خطوں میں کورونا وائرس کی بیماری کووِڈ انیس پھیل چکی ہے۔ اِس وبا سے بچاؤ کے لیے ہاتھ صاف رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/Kontrolab/IPA/S. Laporta
دروازوں کے ہینڈل غیر محفوظ
تازہ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم کئی جگہوں کی سطح پر خود بخود ختم نہیں ہوتی۔ اِن میں خاص طور پر دروازوں کے ہینڈل اہم ہیں۔ دروازے کے ہینڈل پر یہ وائرس لگ جائے تو چار سے پانچ دِن تک زندہ رہتا ہے۔ اِن ہینڈلز کا صاف رکھنا از حد ضروری ہے۔
اپنے دفتر یا کسی کیفے پر کھانا کھاتے ہُوئے بھی احتیاط ضروری ہے۔ اگر کسی نے کھانسی کر دی تو کورونا وائرس کیفے ٹیریا کے برتنوں سے بھی پھیل سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
کیا ٹیڈی بیئر بھی وائرس رکھ سکتا ہے؟
بظاہر ایسا ممکن نہیں کیونکہ خطرات کا اندازہ لگانے والے جرمن ادارے بی ایف آر کا کہنا ہے کہ ابھی تک کھلونوں سے اِس وائرس کے پھیلنے کے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔ بی ایف آر کے مطابق کھلونوں کی غیر ہموار سطحیں وائرس کے پھیلاؤ کے لیے اِمکانی طور پر سازگار نہیں ہوتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
خطوط اور پیکٹس
امریکی تحقیقی ادارے راکی ماؤنٹین لیبارٹری کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم ڈاک سے بھیجی گئی اشیاء پر چوبیس گھنٹے تک پلاسٹک یا کارڈ بورڈ پر زندہ رہ سکتی ہے۔ وائرس کی یہ قسم اسٹین لیس اسٹیل کے برتنوں پر بہتر گھنٹے زندہ رہ سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
پالتُو کُتے بھی وائرس پھیلنے کا باعث ہو سکتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق پالتُو جانوروں سے وائرس پھیلنے کا امکان قدرے کم ہے۔ تاہم انہوں نے ان خدشات کو نظرانداز بھی نہیں کیا ہے۔ جانوروں میں چوں کہ اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتی، اس لیے وہ بیمار نہیں پڑتے۔ مگر اگر وہ اس وائرس سے متاثر ہوں، تو وہ ممنہ طور پر یہ وائرس ان کے پاخانے کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/A. Tarantino
پھل اور سبزیاں
جرمن ادارے بی ایف آر کے مطابق پھلوں اور سبزیوں سے کورونا وائرس کی افزائش کا اِمکان کسی حد تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اچھی طرح کھانا پکانے سے وائرس کے ختم ہونے کا اِمکان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ حدت سے وائرس ہلاک ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Kontrolab/IPA/S. Laporta
جمی ہوئی خوراک مفید نہیں
سارس اور میرس اقسام کے وائرس حدت پسند نہیں کرتے اور انہیں سردی میں فروغ ملتا رہا ہے۔ محقیقن کے مطابق منفی بیس ڈگری سینتی گریڈ میں بھی یہ وائرس کم از کم دو برس تک زندہ رہ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance /imageBROKER/J. Tack
جنگلی حیات سے خبردار
چین نے کووڈ اُنیس بیماری کے پھیلاؤ کے تناظر میں مختلف جنگلی حیات کی تجارت اور کھانے پر سخت پابندی عائد کر دی تھی جو ابھی تک برقرار ہے۔ چینی تحقیق سے ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ کورونا وائرس چمگادڑوں میں پیدا ہوا تھام جب کہ چمگادڑوں سے یہ کسی دوسرے جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/H. Huan
8 تصاویر1 | 8
کیا فی الحال سپورٹس نہیں کرنا چاہیے؟
بالکل کرنا چاہیے: باقاعدگی سے جسمانی ورزش انسان کی صحت اور اس کے مدافعتی نظام کے لیے بہت ضروری ہے۔ جسمانی مدافعتی نظام جتنا مضبوط ہو گا، انفیکشن یا بیمار ہونے کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔ کووڈ انیس کی ابھی تک کوئی ویکسین تیار نہیں ہو سکی۔ چونکہ کہتے ہیں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے، اس لیے کھیلوں اور ورزش سے کورونا وائرس سے ممکنہ تحفظ میں فیصلہ کن مدد مل سکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی بالغ افراد کو ہر ہفتے ڈھائی گھنٹے سے پانچ گھنٹے تک ورزش کرنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ فشار خون اور دل کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ذیابیطس، سرطان اور ذہنی دباؤ جیسی بیماریوں سے بچا جا سکے۔
پروفیسر یوناس شمٹ نے اس تناظر میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ مشورے کورونا کے اس دور میں بھی کار آمد ہیں، ''ورزش صحت کے لیے ضروری ہے اور آج کل بھی۔‘‘ ان کے بقول گھر پر بیٹھے افراد اگر سپورٹس نہیں کریں گے، تو اعصابی دباؤ کی وجہ سےانہیں دل کا دورہ پڑ سکتا ہے یا فالج کا حملہ بھی ہو سکتا ہے۔
پروفیسر یوناس شمٹ مزید کہتے ہیں، ''اگر کوئی تنہا کسی پارک میں جوگنگ یا چہل قدمی کر رہا ہوتو اس کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ ہاں اگر بہت زیادہ لوگ ایک ہی جگہ بہت دیر تک جمع ہوں، تو یہ خطرے کی بات ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایک خاص فاصلہ رکھ کر برابر سے گزرنے میں بھی کوئی پریشانی نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ منہ پر ماسک پہن کر ورزش نہ کی جائے۔