’تباہی سے بچنے کے ليے وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے‘
8 اکتوبر 2018
موسمياتی تبديليوں کے سبب مستقبل ميں کسی ممکنہ تباہ کن صورت حال سے بچنے کے ليے عالمی معيشت اور معاشرے ميں از سر نو تبديلياں درکار ہيں اور اس ضمن ميں وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/L. Schulze
اشتہار
موسمياتی تبديليوں کے سبب عالمی سطح پر تباہی و افراتفری کی ممکنہ صورت حال سے بچنے کے ليے معاشرے اور معيشت ميں واضح تبديلياں ناگزير ہيں۔ اقوام متحدہ نے آٹھ اکتوبر کے روز جاری کردہ ايک تازہ رپورٹ ميں خبردار کيا ہے کہ معاشروں ميں لوگوں کے طرز زندگی اور اقتصاديات ميں اتنی وسيع تر تبدیلیاں درکار ہيں کہ ان کے بارے ميں سوچا بھی نہيں جا سکتا۔ رپورٹ ميں تنبيہ کی گئی ہے کہ تباہ کن صورتحال سے بچنے کے ليے وقت ہاتھ سے نکلے جا رہا ہے۔
دنيا کی سطح کے درجہ حرارت ميں ايک ڈگری سينٹی گريڈ کا اضافہ ہو چکا ہے جو مختلف سمندروں کی سطح ميں اضافے اور نتيجتاً تباہ کن شدت کے طوفانوں، سيلابوں، خشک سالی اور ديگر قدرتی آفات کی آمد کا سبب بن سکتا ہے۔ علاوہ ازيں اگر تبديلياں متعارف نہ کرائی گئيں، تو موجودہ رفتار سے دنيا کی سطح کے درجہ حرارت ميں تين سے چار ڈگری تک کا اضافہ ممکن ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ ميں پيشنگوئی کی گئی ہے کہ زہريلی ’گرين ہاؤس‘ گيسوں کے اخراج کی موجودہ رفتار کے تحت دنيا کے درجہ حرارت ميں ڈيڑھ ڈگری سينٹی گريڈ تک کا اضافہ کم سے کم بھی سن 2030 تک جبکہ زيادہ سے زيادہ سن 2050 تک ممکن ہے۔
جنوبی افریقی شہر ڈربن کے ’انوائرمنٹ پلاننگ اينڈ کلائيميٹ پروٹيکشن ڈپارٹمنٹ‘ کی سربراہ ڈيبرا روبرٹس کا کہنا ہے کہ فيصلہ سازی کے اعتبار سے آئندہ چند سال انسانی کی تاريخ کے اہم ترين سال ہيں۔ اسی طرح لندن کے ’امپيريئل کالج‘ ميں ماحوليات سے متعلق محکمے کے ايک پروفيسر جم اسکيا کا کہنا ہے، ’’ہم نے اپنا کام کر ديا ہے۔ اب يہ حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقدامات اٹھائيں۔‘‘
’انٹر گورنمنٹل پينل فار کلائميٹ چينج‘ يا IPCC کی يہ رپورٹ ايک ايسے موقع پر جاری کی گئی ہے جب دسمبر ميں پولينڈ ميں ايک کلائميٹ سمٹ منعقد ہو رہی ہے۔ اس سربراہی اجلاس ميں عالمی رہنماؤں پر کافی دباؤ ہو گا کہ وہ ضرر رساں گيسوں کے اخراج کو محدود کرنے کے ليے اہداف بڑھائيں اور ان پر عملدرآمد کو يقينی بنائيں۔
موسمياتی تبديلياں پاکستان کو کيسے متاثر کر رہی ہيں؟
پانی کی قلت، قدرتی آفات ميں اضافہ اور شديد گرمی کی لہریں۔ يہ سب اس بات کی نشانياں ہيں کہ موسمياتی تبديلياں پاکستان کو کس طرح متاثر کر رہی ہيں اور مستقبل ميں کيا کچھ ہونے والا ہے۔ ديکھيے اس بارے ميں ايک پکچر گيلری۔
تصویر: REUTERS/M. Raza
پاکستانی عوام کو لاحق خطرات
پاکستان ’گلوبل وارمنگ‘ يا عالمی درجہ حرارت ميں اضافے کا سبب بننے والی ’گرين ہاؤس‘ گيسوں کے عالمی سطح پر اخراج کا صرف ايک فيصد کا حصہ دار ہے تاہم اس کے باوجود موسمياتی تبديليوں و درجہ حرارت ميں اضافے سے پاکستان کی دو سو ملين سے زائد آبادی کو سب سے زيادہ خطرات لاحق ہيں۔ سن 2018 کے ’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈيکس‘ ميں پاکستان ان ممالک کی فہرست ميں شامل ہے، جو موسمياتی تبديليوں سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
پاکستان سب سے زيادہ متاثرہ خطے ميں واقع
جغرافيائی لحاظ سے پاکستان مشرق وسطی و جنوبی ايشيا کے وسط ميں واقع ہے۔ پيش گوئيوں کے مطابق اسی خطے ميں درجہ حرارت ميں اضافے کی رفتار سب سے زيادہ رہے گی۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی ايک سابقہ رپورٹ کے مطابق سن 2100 يا اس صدی کے اختتام تک اس خطے ميں اوسط درجہ حرارت ميں چار ڈگری سينی گريڈ تک کا اضافہ ممکن ہے۔
جان و مال کا نقصان
جرمن واچ نامی تھنک ٹينک کے 2018ء کے ’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈيکس‘ کے مطابق پچھلے قريب بيس برسوں ميں موسمياتی تبديليوں کے اثرات کے سبب پاکستان ميں سالانہ بنيادوں پر 523.1 اموات اور مجموعی طور پر 10,462 اموات ريکارڈ کی گئيں۔ اس عرصے ميں طوفان، سيلاب اور ديگر قدرتی آفات کے سبب تقريباً چار بلين امريکی ڈالر کے برابر مالی نقصانات بھی ريکارڈ کيے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.Naveed
کراچی کو خطرہ لاحق
1945ء ميں پاکستان بھر ميں چار لاکھ ہيکٹر زمين پر مينگرو کے جنگل تھے تاہم اب يہ رقبہ گھٹ کر ستر ہزار ہيکٹر تک رہ گيا ہے۔ مينگرو کے درخت سونامی جيسی قدرتی آفات کی صورت ميں دفاع کا کام کرتے ہيں۔ کراچی ميں سن 1945 ميں آخری مرتبہ سونامی آيا تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بحر ہند ميں کسی بڑے زلزلے کی صورت ميں سونامی کی لہريں ايک سے ڈيڑھ گھٹنے ميں کراچی پہنچ سکتی ہيں اور يہ پورے شہر کو لے ڈوبيں گی۔
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images
سيلاب اور شديد گرمی کی لہريں
پاکستان ميں سن ميں آنے والے سيلابوں کے نتيجے ميں سولہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سيلابی ريلوں نے ساڑھے اڑتيس ہزار اسکوائر کلوميٹر رقبے کو متاثر کيا اور اس کے مالی نقصانات کا تخمينہ دس بلين ڈالر تھا۔ کراچی سے تين برس قبل آنے والی ’ہيٹ ويو‘ يا شديد گرمی کی لہر نے فبارہ سو افراد کو لقمہ اجل بنا ديا۔ ماہرين کے مطابق مستقبل ميں ايسے واقعات قدرتی آفات ميں اضافہ ہوتا جائے گا۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
پاکستان کيسے بچ سکتا ہے؟
موسمياتی تبديليوں کے منفی اثرات سے بچنے کے ليے پاکستان کو سالانہ بنيادوں پر سات سے چودہ بلين ڈالر درکار ہيں۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ يہ فنڈز کہاں سے مليں گے؟ پاکستان کی سينيٹ نے پچھلے سال ايک پاليسی کی منظوری البتہ دے دی تھی، جس کے مطابق پاکستان ميں موسمياتی تبديليوں کے اثرات سے پچنے کے ليے ايک اتھارٹی قائم کی جانی ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Raza
پاکستان کيا کچھ کر سکتا ہے؟
سن 2015 ميں طے ہونے والے پيرس کے معاہدے ميں پاکستان نے سن 2030 تک ’گرين ہاؤس‘ گيسوں کے اخراج ميں تيس فيصد کمی لانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ اس پر تقريباً چاليس بلين ڈالر کے اخراجات آئيں گے۔ پاکستان نے يہ ہدف خود مقرر کیا تھا۔