تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں پاکستان میں تعلیم کا بحران بھی
18 اکتوبر 2022
پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں اس جنوبی ایشیائی ملک کو اب تعلیمی شعبے میں بھی ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں کئی ملین بچوں کے لیے ان کا تعلیمی سلسلہ ابھی تک بحال نہیں ہو سکا۔
اشتہار
بچوں کی مدد کرنے والی اور بین الاقوامی سطح پر فعال تنظیم 'سیو دا چلڈرن‘ کی پاکستانی شاخ کے ڈائریکٹر خرم گوندل نے منگل 18 اکتوبر کے روز اسلام آباد میں جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ نہ صرف اب تک کئی ملین پاکستانی بچے اسکول نہیں جا پا رہے بلکہ ان سے متعلق یہ خدشات بھی اپنی جگہ ہیں کہ ان کی بڑی اکثریت شاید کبھی اسکول واپس جا ہی نہ سکے۔
اشتہار
صحت کے بحران کے ساتھ اب تعلیمی بحران بھی
خرم گوندل نے بتایا، ''ہم صحت کے شعبے میں بھی ایک بحران دیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سیلاب زدگان کے لیے سلامتی کا بحران بھی ہے اور اب پاکستان میں تعلیمی شعبے میں ایک نیا بحران سامنے آتا جا رہا ہے۔‘‘
پاکستان میں مون سون کی انتہائی شدید بارشوں کے بعد حالیہ ہفتوں میں جو تباہ کن سیلاب آئے، ان کے نتیجے میں ملک کا تقریباﹰ ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا۔ ان سیلاب اور ان سے جڑے واقعات اور حادثات میں مجموعی طور پر 1719 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 33 ملین سے زیادہ شہری متاثر ہوئے تھے۔
سیلاب زدگان کی بحالی کا کام کرنے والے حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیلاب زدہ علاقوں میں پھیلتی مختلف بیماریاں اپنی جگہ پریشان کن تھیں اور ابھی تک ہیں جبکہ کئی ملین بچوں کا اسکول نہ جانا بھی اب بحرانی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
سیو دا چلڈرن کی پاکستانی شاخ کے مطابق حالیہ سیلاب سے ملک کے مختلف حصوں میں مجموعی طور پر 23 ہزار 900 کے قریب اسکول پوری طرح تباہ ہو گئے یا انہیں جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ پانچ ہزار سے زائد اسکول ابھی تک سیلاب زدگان کے لیے عارضی رہائشی کیمپوں کے طور پر بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ ان میں سے نصف اسکول صوبہ سندھ میں واقع ہیں۔
صوبہ سندھ میں بحالی اور ریلیف سے متعلق منصوبوں کے لیے وزیر اعلیٰ کے مشیر رسول بخش چانڈیو نے بتایا کہ صرف اس ایک پاکستانی صوبے میں سیلاب سے 12 ہزار کے قریب اسکول متاثر ہوئے۔ ان اسکولوں میں تقریباﹰ دو ملین بچے زیر تعلیم تھے، جن کی پڑھائی کا سلسلہ تاحال معطل ہے۔
خرم گوندل کے مطابق، ''وہ بچے جو اسکول نہیں جا پا رہے، ان کے بارے میں یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر وہ محنت مزدوری کرنا شروع ہو گئے، تو ان کی تعلیم کا سلسلہ کبھی بحال نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ سیلاب کے باعث جو بچیاں اسکول نہیں جا رہیں، ان سے متعلق یہ خدشات بھی زیادہ ہو گئے ہیں کہ ان کے سیلاب زدہ اور اپنا تقریباﹰ سب کچھ کھو چکے والدین ان کی بچپن ہی میں شادیاں کرنے لگ جائیں گے۔‘‘
بچوں کی تعلیم اور پاکستان کا منفی ریکارڈ
سیوا دا چلڈرن کی طرف سے پاکستان میں حکومتی اداروں کے ساتھ اشتراک عمل سے اس وقت 90 ایسے تعلیمی مراکز قائم کیے جا چکے ہیں، جہاں متاثرہ بچوں کی پڑھائی میں مدد کی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق بچوں کی تعلیم کے لحاظ سے پاکستان کا ایک منفی ریکارڈ بھی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والا پاکستان عالمی درجہ بندی میں دوسرا ایسا ملک ہے جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
یونیسیف کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں پانچ سے 16 برس تک کی عمر کے تقریباﹰ 22.8 ملین بچے ایسے ہیں، جو حصول تعلیم کے لیے اسکول جاتے ہی نہیں۔ یہ تعداد اسی عمر کے پاکستانی باشندوں کی مجموعی آبادی کا 44 فیصد بنتی ہے۔
م م / ا ب ا (ڈی پی اے، یونیسیف)
پاکستان میں تباہ کن سیلابوں کا سلسلہ جاری
حالیہ سیلابوں کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں پاکستان بھر میں گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقتصادی مشکلات کے شکار اس ملک میں آنے والی اس تازہ قدرتی آفت نے حکومت اور عوام کو مزید بدحال کر دیا ہے۔
تصویر: Shakeel Ahmed/AA/picture alliance
ملک بھر میں تباہی
یہ منظر ہے شمالی پاکستانی شہر چارسدہ کا، اس وقت پاکستان کا زیادہ تر رقبہ ایسے ہی مناظر پیش کر رہا ہے۔ پاکستان میں تحفظ ماحول کی وزیر شیری رحمان کے مطابق موسمیاتی تبدیلیاں تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ برس کے مقابلے میں اس برس دوگنا بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ کچھ علاقوں میں تو چار گنا زیادہ پانی برسا۔
تصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images
جو بچ سکا بچا لیا
یہ تصویر پشاور کے قریبی علاقے کی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ ہر شخص کی کوشش ہے کہ وہ اپنے گھریلو سازوسامان کو خشکی تک پہنچا دے۔ سن 2010 میں بھی پاکستان کو بدترین سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بارہ برس قبل کی اس تباہی میں کم ازکم دو ہزار افراد مارے گئے تھے۔ ناقدین کے بقول حکومت پاکستان نے اگر ماضی سے سبق سیکھا ہوتا تو حالیہ تباہی کا پیمانہ اتنا بڑا نہ ہوتا۔
تصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance
گاؤں کے گاؤں بہہ گئے
لاکھوں پاکستانیوں کی طرح یہ شخص بھی بے گھر ہو چکا ہے۔ مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جون میں شروع ہوا، جو بدستور جاری ہے۔ اس دوران سیلابوں کی وجہ سے دس لاکھ مکان منہدم یا متاثر ہو چکے ہیں۔ سیلاب اتنے شدید آئے کہ گاؤں کے گاؤں بہہ گئے۔ پاکستانی حکام کے مطابق حالیہ تباہ کاریوں کے نتیجے میں کم ازکم تینتیس ملین افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Amer Hussain/REUTERS
تباہی پر تباہی
پاکستان میں سیلابوں کی وجہ سے اتنے بڑے پر تباہی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب یہ جنوب ایشیائی ملک پہلے ہی اقتصادی بحران کا شکار تھا۔ مہنگائی اور افراط زر نے لوگوں کو تنگ کر رکھا تھا کہ یہ سیلاب پاکستانیوں کے لیے مزید مشکلات لے آئے ہیں۔ اب تو بنیادی ضروریات زندگی اور خوردونوش کی اشیا کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔
تصویر: Fayaz Aziz/REUTERS
مالی مشکلات میں اضافہ
اس قدرتی آفت کی وجہ سے پاکستان بھر میں ایک سوگ کا عالم ہے۔ لاکھوں لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی جہاں پانی میں بہہ چکی ہے، وہیں زرعی اراضی کو بھی شدید نقصان ہوا ہے۔ غریب کسانوں کو اپنی زندگیاں دوبارہ شروع کرنے کی خاطر حکومتی مدد کی ضرروت ہو گی، جو پاکستان کے موجودہ معاشی حالات میں ایک چیلنج سے کم نہیں۔
تصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance
کھلے آسمان تلے مجبور لوگ
ان سیلابوں کی وجہ سے بے گھر ہو جانے والے ہزاروں پاکستانی اس وقت کھلے آسمان تلے مدد کے منتظر ہیں۔ کئی مقامات پر عارضی پناہ گاہوں کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ تاہم سیلاب تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ حکام کے مطابق بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Abdul Majeed/AFP
عالمی امداد آنا شروع
ترکی اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے خیمے اور ضروریات زندگی کی اہم اشیا پاکستان روانہ کی جا رہی ہیں۔ دیگر ممالک بھی پاکستان کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے فعال ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر متاثرہ علاقوں میں ہر جا پانی ہی پانی ہے، جس کی وجہ سے امدادی ہیلی کاپٹرز کو لینڈ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Naveed Ali/AP Photo/picture alliance
امدادی کاموں میں مشکلات
حالیہ سیلابوں نے پاکستان کے چاروں صوبوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ بے شمار پل اور سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں۔ اس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام متاثر ہوا اور فوری طور پر متاثرہ علاقوں تک امدادی سامان پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم ایک اچھی خبر یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ ہفتے سے بارشوں کا سلسلہ تھم جائے گا۔