دس مارچ 1959ء کو تبت میں بغاوت شروع ہوتے ہی تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے بھارت فرار ہو کر ایک ’جلا وطن حکومت قائم‘ کر لی تھی، تاکہ آزادی کے لیے پر امن جدوجہد کی جا سکے۔ چین کی نظر میں وہ ’علیحدگی پسند باغی‘ ہیں۔
اشتہار
تبت میں چینی حکمرانی کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر بیجنگ حکومت اب بھی اپنی حکمت عملی کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کرتی ہے کہ جو لوگ ان کی پالیسی پر سوال اٹھاتے ہیں وہ متعصب ہیں۔ تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو جلا وطنی کی زندگی گزارتے ہوئے ساٹھ سال ہو گئے ہیں۔
تبت میں بغاوت کے ساٹھ سال مکمل ہونے پر چینی خبررساں ادارے ’شنہوا‘ نے اپنے ایک اداریے میں لکھا کہ خطے میں ہونے والی اقتصادی ترقی، شہریوں کی اوسط عمر میں اضافہ اور بہتر تعلیمی سہولیات ناقدین کے سوالوں کا جواب ہیں۔
شنہوا نے اپنے اس اداریے میں بغاوت کے آغاز کا براہ راست ذکر نہیں کیا بلکہ 1959ء کو پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں ’جمہوری اصلاحات‘ کی ابتدا قرار دیا۔ اور ان واقعات کو بدھ راج اور سامراجی ڈھانچے کا خاتمے سے تشبیہ دی۔
تبت چین کے زیر انتظام ہے اور یہاں پر سلامتی کے اداروں کے اہلکار تعینات ہیں۔ دیگر ممالک میں رہنے والے تبتیوں کا کہنا ہے کہ چین اپنے مفاد کی خاطر ہمالیہ کے خطے میں موجود وسائل کا استحصال کر رہا ہے جبکہ تبت کی زبان اور منفرد بودھ ثقافت کو رفتہ رفتہ تباہ کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب چین کا دعوی ہے کہ یہ علاقہ صدیوں سے اس کا حصہ رہا ہے جبکہ بہت سے تبتیوں کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی طور پر زیادہ تر وقت آزاد ہی رہے ہیں۔ کمیونسٹ دستوں نے 1950ء میں ایک مختصر سی فوجی کارروائی کے بعد اس خطے کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔
خبر رساں اداروں کے مطابق تبت کے موجودہ حالات کے بارے آزادانہ طور پر معلومات حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ غیر ملکی سیاح ایک خصوصی اجازت نامے کے بعد ہی تبت جا سکتے ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی صحافیوں کو بھی شاذ و نادر ہی وہاں تک رسائی دی جاتی اور تبتیوں کے تہواروں کے موقع پر تو غیر ملکیوں کے وہاں جانے پر مکمل پابندی ہوتی ہے۔
تبیتوں کے بین الاقوامی نیٹ ورک کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو اس موقع پر ایک خط ارسال کیا گیا ہے، جس کے مطابق، ’’چین نے اپنے طویل دور حکمرانی کے دوران شہریوں کے انسانی اور سیاسی حقوق کی پامالی کی ہے۔ اب بین الاقوامی برادری کی جانب سے جرات مندانہ رد عمل ظاہر کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔