تبتی جلا وطن حکومت کے انتخاب کے لیے ووٹنگ
20 مارچ 2016سن 2011 میں دلائی لامہ کے ملکی سربراہی سے دستبردار ہونے کے بعد دوسری بار یہ الیکشن ہو رہے ہیں۔ دلائی لامہ نے حکومت کی سربراہی ترک کرنے کا فیصلہ یہ کہہ کر کیا تھا کہ اب وہ محض ایک روحانی پیشوا کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
اُن کی خواہش ہے کہ نئی تبتی حکومت کی تشکیل میں تبتی باشندوں کا عمل دخل زیادہ سے زیادہ ہو۔ سیاسی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونے کے دلائی لامہ کے ارادے کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بزرگ سیاسی اور مذہبی رہنما تبت کی علامت بن چکے ہیں۔ دلائی لامہ کے سربراہ مملکت کا عہدہ چھوڑ دینے کے بعد سے تبتی تحریک کے دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات میں تبدیلی آئی ہے۔
قرمزی رنگ کے چوغوں میں ملبوس راہبوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں تبتی خواتین اور مرد بھارت کے شمالی شہر دھرم شالہ کے اسکولوں، حکومتی عمارتوں کے صحنوں اور اپنے روایتی مقدس مندر کے باہر لمبی قطاروں میں لگے نظر آ رہے ہیں۔ اس جگہ حق رائی دہی استعمال کرنے والے تبتی ووٹروں کے لیے ایک جشن کا سا ماحول بنا ہوا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں تبتی حکومت کا مرکز قائم ہے۔
تبت کے وزیر اعظم لوبسانگ سانگے دوبارہ سے منتخب ہونے کے لیے الیکشن کی اس دوڑ میں شامل ہیں جبکہ ان کے مد مقابل پارلیمان کے اسپیکر پنپا سیرنگ ہیں۔ دونوں سیاسی طور پر میانہ روی کی راہ اختیار کیے ہوئے ہیں جو تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کی تجویز کردہ پالیسی ہے۔ اس پالیسی کے تحت تبتی باشندے چینی حکمرانی میں علاقائی خود مختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایک روزہ اس ووٹنگ کے مرحلے میں حصہ لینے کے لیے 80 ہزار تبتی باشندوں نے اپنے ناموں کا اندراج کروایا ہے۔ آج ہونے والی ووٹنگ کے نتائج آئندہ ماہ سامنے آنے کی توقع ہے۔
چین کے ساتھ تبتیوں کی خود مختاری کے مطالبے پر بہت کم پیش رفت ہونے کے سبب تبتیوں کے چند گروپوں کی طرف سے خود مختاری کے حق کی بھرپور وکالت کی جا رہی ہے تاہم گزشتہ برس وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے منعقد ہونے والی ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں خودمختاری کی وکالت کرنے والے تبتی باشندوں کے گروپوں کے نمائندوں کو کافی ووٹ نہیں مل پائے تھے۔
تبت کے ایک معروف مصنف بوخُنگ ڈے سونم کے بقول، ’’تبت کے مستقبل کے بارے میں بہت کم بحث ہوئی ہے، مثال کے طور پر اس بارے میں کہ دونوں امیدوار تبت کے مسئلے پر چین کے ساتھ بات چیت کے لیے کون سی حکمت عملی اختیار کریں گے؟ یہ سوال جواب طلب ہے۔‘‘
چین تبتیوں کی جلاوطن حکومت کو تسلیم نہیں کرتا۔ بیجنگ نے 2010 ء سے اب تک دلائی لامہ کے نمائندوں کے ساتھ کسی قسم کی مکالمت نہیں کی ہے۔
جلا وطن تبتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ تبت پر چینی حکمرانی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے قریب 114 راہب اور عام تبتی باشندے گزشتہ پانچ سال کے دوران احتجاج کے طور پر خود سوزی کر چکے ہیں۔ ریڈیو فری ایشیا کے مطابق کے مطابق 2009 ء سے اب تک چین کے خلاف احتجاج کے طور پر 114 تبتی باشندوں کی خود سوزی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔