1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبتی نئی دہلی میں چین مخالف ریلی نہیں نکال سکیں گے

8 مارچ 2018

تبتی اپنے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے ساتھ نئی دہلی میں ایک ریلی نکالنا چاہتے تھے مگر بھارتی حکومت نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ ریلی چین کے خلاف مزاحمت کے ساٹھ برس پورے ہونے کے موقع پر نکالی جانی تھی۔

تصویر: AP

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ اور داخلہ کے اعلٰی حکام نے بتایا ہے کہ جلا وطن تبتی نئی دہلی میں کوئی ریلی نہیں نکال سکتے لیکن اگر وہ چاہیں تو شمالی شہر دھرم شالہ میں ایسا کر سکتے ہیں، ’’ہم نہیں چاہتے کہ تبتی نئی دہلی میں چین مخالف ایک بڑا مظاہرہ کریں کیونکہ اس کی وجہ سے چین اور بھارت کے مابین سفارتی تناؤ پیدا ہو جائے گا۔‘‘

 اس بیان میں مزید کہا گیا، ’’یہ ان دونوں ممالک کے لیے نازک معاملہ ہے اور ہم تناؤ کو کم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ بھارتی شہر دھرم شالہ میں تبتیوں کی جلا وطن حکومت قائم ہے۔

بھارت اورنیپال اس سے قبل بھی تبتیوں کی چین مخالف ریلیوں پر پابندی عائد کر چکے ہیںتصویر: AP

چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے آج جمعرات کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور چین  باہمی تعلقات میں موجود فقدان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔

چین اور بھارت کے باہمی تعلقات گزشتہ مہینوں کے دوران اس وقت اور بھی کشیدہ ہو گئے تھے، جب متنازعہ سرحدی علاقوں پر دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئی تھیں۔ چین نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مشرقی سرحد پر واقع ریاست ارونا چل پردیش کے دورے پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔ چین اس ریاست پر اپنی ملکیت کا دعوی کرتا ہے۔

 

دلائی لامہ کے حوالے سے بھارت کے مؤقف میں تبدیلی؟

بدھا ہوتے تو روہنگیا کی مدد کر رہے ہوتے، دلائی لامہ

تبت کی بغاوت کی سالگرہ: نئی دہلی میں مظاہرہ

بھارت اورنیپال اس سے قبل بھی تبتیوں کی جانب سے چین مخالف ریلیوں پر پابندی عائد کر چکے ہیں، خاص طور پر ایسے اوقات میں جب کوئی چینی رہنما ان ممالک کا دورہ کرنے والا تھا۔

چین نے 1950ء میں تبت کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسے اس خطے کی ’پر امن آزادی‘ کا نام دیا تھا۔ بعدازاں 1958ء میں تبتیوں کی جانب سے چین کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا گیا تھا، جس کے بعد روحانی پیشوا دلائی لامہ نے تبت سے فرار ہو کر بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کی تھی۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں