تبت میں خود سوزی بڑھتی جا رہی ہے
11 جنوری 2012تبت میں خود سوزی کا یہ پندرہواں واقعہ تھا۔ رپورٹس کے مطابق حالیہ واقعے کے بعد تبتیوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔ بدھ راہب Nyade Sonamdrugyu نے درلاگ کے ایک پولیس اسٹیشن کے سامنے خود کو آگ لگا لی۔ تبتیوں کے جلا وطن حکومت کے مطابق خود سوزی کے واقعے کے بعد بدھ راہب نے Nyade کی باقیات اٹھا کر درلاگ کی سڑکوں پر گھومے۔ اس دوران چینی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا نے بتایا کہ لاش کو ورثاء کے حوالے کر دیا گیا اور ان کی آخری رسومات بھی ادا کر دی گئی ہیں۔
جرمنی میں بین الاقوامی تبتی تنظیم کے مینیجر کائی ملّر کہتے ہیں کہ خود سوزی کے واقعات کا ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے۔ ’’یہ واقعہ کئی اعتبار سے نمایاں ہے۔ یہ ایک اعلی اور معزز تبتی کا معاملہ تھا، ایک ایسا تبتی جسے پاس لاما کا رتبہ حاصل تھا۔ اس وجہ سے مقامی سطح پر وہ ایک خاص مقام کا حامل تھا‘‘۔
ملّر کے بقول اس کے علاوہ صوبہ چنگہائی میں خود سوزی کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ امریکی ریڈیو ’ریڈیو فری یورپ‘ کے مطابق Nyade نے خود سوزی سے قبل ایک پمفلٹ تقسیم کیا تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بناء پر نہیں بلکہ تبت اور تبتیوں کی بہتری کے لیے یہ اقدام اٹھا رہے ہیں۔ مارچ 2011ء سے تبت میں راہبوں نے خود کو نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور ہلاکت کا یہ نواں واقعہ تھا۔
تبتی جلا وطن حکومت کے وزیراعظم لوبسانگ سانگے ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ خود سوزی چین کے حوالے سے تبتیوں کی نا امیدی اور مایوسی کا اظہار ہے۔ ’’یہ تبتی کہتے ہیں کہ ایسی زندگی سے موت اچھی ہے۔ ایسا فیصلہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے، جو انتہائی مشکل اور تکلیف دہ حالات سے گزر رہا ہو۔ چین کی تبتی پالیسی بہت سخت ہے اور جس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا‘‘۔
لندن میں قائم تنظیم ’فری تبت‘ کے مطابق گزشتہ ویک اینڈ پر خود کشی کرنے والے ایک نوجوان نے خود کو آگ لگانے سے قبل جلا وطن تبتی رہنما دلائی لامہ کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ واقعہ صوبہ سیچوان میں پیش آیا تھا۔ اسی صوبے میں خود سوزی کے سب سے زیادہ واقعات یہاں ہی پیش آئے ہیں۔ جلا وطن تبتی گروپوں کے مطابق چینی حکام نے علاقے میں قائم راہبوں کی خانقاہوں کی ناکہ بندی کر دی ہے اور تین سو سے زائد راہبوں کو گرفتار کر کے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: عابد حسین