تبت چین کے ساتھ ’یورپی یونین‘ کی طرح رہ سکتا ہے، دلائی لاما
16 مارچ 2018
تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لاما نے کہا ہے کہ تبت چین کے ساتھ بالکل اسی طرح مل کر رہ سکتا ہے، جیسے یورپی یونین کے ممالک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ چین دلائی لاما کو ’انتہائی خطرناک علیحدگی پسند‘ قرار دیتا ہے۔
اشتہار
تبت میں 1959ء کے دوران بیجنگ حکومت کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت کے بعد دلائی لاما فرار ہو کر بھارت چلے گئے تھے۔ انہوں نے بھارتی علاقے دھرم شالا پہنچ کر ایک جلاوطن حکومت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اس پیش رفت سے نو برس قبل چینی فوجیوں نے تبت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
دلائی لاما کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقے کی صرف خودمختاری چاہتے ہیں ناکہ چین سے مکمل آزادی۔ اب انہوں نے تبت واپس جانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔ ان کا ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آپ نے دیکھا ہوگا، میں نے ہمیشہ یورپی یونین کے نظریے کی تعریف کی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ پیغام واشنگٹن میں قائم ’انٹرنیشنل کیمپین فار تبت‘ نامی گروپ کے قیام کی تیسویں سالگرہ کے موقع پر جاری کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’’صرف قومی مفاد ہی نہیں بلکہ مشترکہ مفادات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس نظریے کے ساتھ میں چین حکومت کے ساتھ مل کر رہنا چاہتا ہوں۔ چینی لفظ گون گوئیگو (جمہوریہ) ظاہر کرتا ہے کہ کچھ یونین (اتحاد) وہاں موجود ہے۔‘‘
چین کے مطابق تبت اس کا لازمی حصہ ہے اور ایسا صدیوں سے ہے۔ بیجنگ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے تبت میں نہ صرف غلامی کا خاتمہ کیا ہے بلکہ وہ اس پسماندہ خطے میں خوشحالی بھی لے کر آئی ہے۔ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ تبتی عوام اور ان کے حقوق کیا پوری طرح احترام کرتا ہے۔
دوسری جانب چین دلائی لاما کو ایک ’خطرناک علیحدگی پسند‘ بھی قرار دیتا ہے۔ اسی طرح چین بین الاقوامی رہنماؤں کو بھی ان سے ملنے سے خبردار کر چکا ہے۔ اب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک دلائی لاما سے ملاقات نہیں کی جب کہ ان سے قبل سبھی حالیہ امریکی صدور دلائی لاما سے ملاقات کرتے آئے ہیں۔
دلائی لاما کی طرف سے ایک مرتبہ پھر مصالحت کی یہ پیش کش ایک ایسے وقت کی گئی ہے، جب شی جن پنگ دوسری مرتبہ صدارت کا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔