1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبت کی آزادی کے حق میں خود سوزیاں

5 مارچ 2012

مغربی چین کے بحران زدہ علاقوں میں گزشتہ چند ماہ کے دوران خود سوزی کے 22 واقعات ہو چکے ہیں۔ دو تازہ واقعات میں ایک نو عمر تبتی لڑکی اور ایک بیوہ ماں ہلاک ہو گئیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

امریکہ میں قائم ریڈیو فری ایشیا نے پیر کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس نامعلوم لڑکی نے، جس کا تعلق گان سُو صوبے کے شہر ماچُو کے تبتی مڈل اسکول سے تھا، ہفتے کے روز ایک بازار میں خود کو آگ لگا لی۔ ریڈیو نے ماچُو میں روابط رکھنے والے ایک جلا وطن تبتی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہان چینی تاجروں نے پولیس بلا لی تھی، جس نے آ کر اس لڑکی کی لاش اپنی تحویل میں لے لی۔ اس مڈل اسکول کے طلبہ اس سے پہلے بھی تبتی شہریوں پر حکومت کے کنٹرول کے خلاف احتجاج کر چکے ہیں اور پولیس متعدد طلبہ کو حراست میں بھی لے چکی ہے۔

لندن میں قائم فری تبت تحریک کے مطابق اتوار کو ہمسایہ صوبے سچوآن کے نگابا نامی شہر میں ایک 32 سالہ تبتی خاتون خود کو آگ لگانے کے نتیجے میں جل کر ہلاک ہو گئی۔ ایک پولیس اسٹیشن کے قریب خود کو آگ لگانے والی چار بچوں کی ماں اس خاتون کا نام رنچن بتایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ بیوہ خاتون تبت کی آزادی اور جلا وطن تبتی رہنما دلائی لامہ کی واپسی کے حق میں نعرے لگا رہی تھی۔ بدھ بھکشو اور تبتی شہری اس خاتون کی لاش کو اُس خانقاہ کے اندر لے گئے، جس کے مرکزی دروازے کے سامنے اُس نے خود سوزی کی تھی۔

نئی دہلی میں جلا وطن تبتیوں کے مظاہرے کا ایک منظرتصویر: picture alliance / dpa

پے در پے احتجاج اور خود سوزی کے متعدد واقعات کی بناء پر اس سال چینی حکومت نے تبت کے کئی علاقوں میں سکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کر دیے ہیں۔ رِنچن کی موت پر اپنے ایک بیان میں فری تبت تحریک کی ڈائریکٹر اسٹیفانی بریجن نے کہا کہ ’تبتی در حقیقت ایک مارشل لاء کے تحت زندگی گزار رہے ہیں‘۔

2008ء میں بڑے پیمانے پر ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد سے بیجنگ حکومت نے تبتی علاقوں پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر دی ہے، صحافیوں کو وہاں نہیں جانے دیا جاتا، غیر ملکی سیاحوں کی آمد محدود کر دی گئی ہے اور کچھ جگہوں پر مواصلاتی رابطے منقطع کر دیے گئے ہیں۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں