برازیل کی آزادی کے 200 سال - ایک ٹوٹے وعدے کی کہانی
7 ستمبر 2022
ایسے بہت کم ممالک ہیں جو برازیل کی طرح قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال ہیں۔ اس کے باوجود یہاں غربت ایک عام سی بات ہے۔ ریو میں ڈی ڈبلیو کے نمائندے فلپ لشٹربیک اپنے تبصرے میں برازیل کے ماضی و حال پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
اشتہار
برازیل کی تاریخ ایک عظیم وعدے کی کہانی کے طور پر بیان کی جاسکتی ہے۔ ایک ایسی قوم کی کہانی، جس کے پاس امیر اور خوشحال ہونے کے لیے بہترین مواقع موجود ہیں۔ برازیل کے پاس وسیع زرخیز علاقہ ، طویل دریاؤں کے ہزاروں حصے، دنیا کا سب سے بڑا برساتی جنگل، بے پناہ حیاتیاتی تنوع، تقریباﹰ گیارہ سو کلومیٹر ساحلی پٹی اور معدنی وسائل کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ چار براعظموں کے اثرات، تجربات اور صلاحیتوں سے بھری اس کی آبادی میں شاید ہی مزید تنوع ہوسکتا ہے۔
لیکن اہم ترین سوالات یہ ہیں کہ برازیل اب تک اپنے تمام تر ترقیاتی عزائم پورے کیوں نہیں کرسکا؟ برازیل کے تقریباﹰ 63 ملین عوام غربت کی سطح سے نیچے کیوں رہتے ہیں؟ اور 125 ملین افراد کو اپنی خوراک کی حفاظت کی ہر وقت فکر کیوں ستاتی رہتی ہے؟ کیوں ملک کے کسانوں کا محض ایک فیصد حصہ اپنی زمین کے صرف پینتالیس فیصد حصے کا مالک ہے؟ سیاہ فام افراد ملک کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ بنتے ہیں لیکن ابھی تک کوئی افرو-برازیلئن ملک میں سربراہی عہدے تک کیوں نہیں پہنچ سکا؟ اور کیوں ہر سال پچاس ہزار برازیلی قتل ہوتے ہیں، اوسطاﹰ 130 یومیہ؟ ویانا کے ایک مصنف اسٹیفن سوائیگ نے سن 1941 میں برازیل کی ان گنت صلاحیتوں کا اندازہ لگاتے ہوئے اسے ''مستقبل کی سرزمین‘‘ قرار دیا تھا۔ لیکن یہ ملک اپنی آزادی کے دو سو سال بعد بھی اپنے سنہرے مستقبل کا انتظار ہی کر رہا ہے۔
برازیل کا قیام، ایک جمہوریہ کے بجائے بادشاہت کے طور پر
برازیلین قوم کی داستان سن 1822 کے دوران ایک داغ کے ساتھ شروع ہوئی۔ لاطینی امریکہ کے ہسپانوی زبان بولنے والے دیگر نوآبادی علاقوں کے برعکس، برازیل جمہوریہ کے بجائے شاہی نظام کے ساتھ سامنے آیا۔ ریاست کے پہلے سربراہ شہنشاہ پیڈرو اول تھے، جو پرتگال کے سابق ولی عہد تھے۔ اقتصادی طور پر برازیل کا 16ویں صدی سے شمال مشرق میں چینی کی پیداوار پر انحصار رہا۔ زراعت کی صنعت پر چند خاندانوں کا کنٹرول تھا، جو بادشاہت کی حمایت کرتے تھے اور انہیں بدلاؤ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسی دوران 18ویں صدی میں 'گولڈ رش‘ کے عروج کے سبب برازیل کا جنوب مشرقی حصہ تجارت کا مرکز بننا شروع ہو گیا اور دارالحکومت سلواڈور سے ریو منتقل کر دیا گیا۔
برازیل کی سیر کیجیے
برازیل میں ہر سال دنیا بھر سے سیاح سیر کے لیے آتے ہیں۔ سیر کرنے کے لیے دنیا کے پانچویں بڑے ملک برازیل کے بہترین مقامات یہ ہیں۔
یہ شہر دو افسانوی ساحلوں کا شہر ہے اور ماضی کے کئی شہرہ آفاق گیتوں میں ان کا ذکر ملتا ہے۔ یہ شہر چھ اعشاریہ بتیس ملین کی آبادی کے ساتھ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ سورج کے پجاریوں کے لیے اس شہر کے ساحل مقناطیس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. J. Phillip
خلیج گوانابارا کا غروب آفتاب
ریو ڈی جینرو کے ساحل پر کھڑے ہو کر پہاڑوں اور جزائر کے پیچھے غروب ہوتے ہوئے آفتاب کا نظارہ کرنا ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ اس تصویر میں آپ ریو کے مشہور شوگر لوف پہاڑوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/C. Wallberg
شوگر لوف کی کیبل کار
ریو ناقابل بیان مناظر سے سے بھرا پڑا ہے۔ اگر آپ برازیل کی سیاحت کے لیے جائیں توشوگر لوف پہاڑوں کے مقام وسٹا پر ہر صورت جائیں۔ سیاح کیبل کار کے ذریعے تین سو پچانوے میٹر بلند چوٹی تک پہنچ رہے ہیں۔ یہ چوٹی سن انیس سو تیرہ سے سیاحوں کی توجہ کی مرکز ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/D. Gammert
ریو کی علامت
مسیح نجات دہندہ ( مجمسہ) بازو پھیلائے شوگر لوف پہاڑوں کو دیکھ رہا ہے۔ یہ مجسمہ تیس میٹر بلند، اٹھائیس میٹر چوڑا اور اس کا وزن تقریباﹰ گیارہ سو پینتالیس ٹن ہے۔ اسے ریو کی علامت بھی کہا جاتا ہے۔ روزانہ تقریباﹰ چار ہزار سیاح اس مجسمے کے مقام پر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB/D. Gammert
ریو کا دوسرا چہرہ
ریو کی کچی آبادی کو اس کا دوسرا چہرہ قرار دیا جاتا ہے۔ ریو میں چھ ملین سے زائد افراد رہائش پذیر ہیں اور ان میں سے ہر پانچواں فرد اسی طرح کی کسی کچی آبادی میں رہتا ہے۔ ایسے سیاح کم ہی ہوتے ہیں، جو ذاتی طور پر اس علاقے کا رخ کریں لیکن کسی مقامی گائیڈ کے ساتھ اس علاقے کی سیر کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
برازیل کا کارنیوال
کارنیوال برازیل کا سب سے اہم تہوار ہے۔ مقامی افراد اور سیاح ریو کی گلیوں اور سڑکوں پر مل کر یہ جشن مناتے ہیں۔ سب سے منفرد بات یہ ہے کہ اس دوران ریو کے مشہور سمبا اسکولوں کے مابین مقابلہ ہوتا ہے اور اس میں ہزاروں سمبا ڈانسر حصے لیتے ہیں۔
برازیل کی اگوازو آبشار ایک قدرتی عجوبے سے کم نہیں ہے۔ یہ آبشار برازیل میں ارجنٹائین کی سرحد کے قریب واقع ہے اور دنیا کی سب سے بڑی آبشار ہے۔ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل اس آبشار کا سب سے بہترین ویو برازیل کی طرف سے ہی نظر آتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/L. Avers
نیشنل پارک
چکمتی ہوئی ریت کے ہزاروں ٹیلے اور ان کے درمیان میٹھے پانی کے چشمے مل کر انتہائی خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔ یہ منفرد پارک برازیل کے شمال میں پندرہ سو پچاس مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اسے انیس سو اکیاسی میں نیشنل پارک کا درجہ دے دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ZB/R. Hirschberger
ایمیزون دریا
دنیا کے کسی بھی دریا سے زیادہ پانی ایمیزون دریا میں پایا جاتا ہے۔ اگر آپ برازیل کے قدرتی حسن کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو وقت درکار ہو گا۔ مقامی گائیڈ اور کمپنیاں ہر طرح کی سہولیات فراہم کرتے ہیں اور جنگل کیمپ میں بھی قیام کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Rudhart
میناوس شہر کی انفرادیت
قدرتی حسن کے علاوہ جس کو اوپرا سے محبت ہے وہ میناوس شہر کا رخ کر سکتا ہے۔ اس شہر میں ہر سال تین ہفتوں پر مشتمل اوپرا فیسٹیول منایا جاتا ہے۔ اس شہر کا مشہور اوپرا ہاؤس بھی قابل دید ہے، جسے مقامی ربڑ انڈسٹری سے ملنے والے آمدنی سے 1896ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
اولینڈا میں فن تعمیر کا حسن
شمال مشرقی برازیل میں بہت کم سیاح جاتے ہیں۔ لیکن اولینڈا شہر کو نو آبادیاتی دور کے فن تعمیر کا زیور سمجھا جاتا ہے۔ سترہویں صدی میں اسے آرٹسٹوں کا شہر سمجھا جاتا تھا اور اس کی اس حیثیت میں آج بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسے شہر کو 1982ء میں یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کر لیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/robertharding
سلواڈور ڈی باحیہ (افریقی وراثت)
شہر سلواڈور ڈی باحیہ سابق پرتگالی کالونی رہا ہے اور یہ صدیوں تک سرمایہ کاروں کے لیے برازیل میں غلاموں کی تجارت کا مرکز رہا ہے۔ آج اسے افریقی برازیلی ثقافت کا مرکز کہا جاتا ہے۔ یہ شہر نہ صرف موسیقی بلکہ دوستانہ ماحول کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/AGF
تیسرا دارالحکومت
برازیل کی تاریخ میں اس کے تین دارالحکومت رہے ہیں۔ سب سے پہلا دارالحکومت سلواڈور ڈی باحیہ تھا پھر ریو ڈی جنیرو بنا اور 1960ء سے برازیلیہ دارالحکومت ہے۔
تصویر: picture-alliance/L. Avers
13 تصاویر1 | 13
نئی ریاست کی پہلی دہائیاں براعظم میں ہسپانوی بولنے والی ری پبلکس کے مقابلے میں کم افراتفری کا شکار تھیں۔ اس کے باوجود، پیڈرو کی مقبولیت میں کمی آئی۔ بڑے زمینداروں کی ناراضگی کو مول لیتے ہوئے، اس نے انگلینڈ کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے جس میں برازیل نے غلاموں کی درآمد بند کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ تاہم غلاموں کے تاجروں نے اس کی پرواہ کیے بغیر اپنا کاروبار جاری رکھا۔ برازیل کی سفید فام اشرافیہ نے دوسرے لوگوں کے استحصال اور جبر کو اپنا حق سمجھا جسے انہوں نے نسل پرستانہ سوچ کے اعتبار سے بھی جائز قرار دیا۔ یہ ذہنیت آج تک برازیل کی اشرافیہ کی خصوصیت بنی ہوئی ہے۔
اشتہار
سماجی نظام: شاید ہی کوئی تبدیلی آ سکی
برازیل کا طبقات پر مبنی سماجی نظام دو سو سالوں میں مشکل سے بدل سکا، اگرچہ اسے جدیدیت کی جانب بار بار دھکیلنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ سن 1950 کی دہائی میں، برازیل نے فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کی، سرکاری تیل کمپنی پیٹروبراس کی بنیاد رکھی گئی اور ایک نیا دارالحکومت بنایا گیا۔ برازیلیا، جس کا افتتاح سن 1960 میں ہوا۔ یہ شہر قوم کی خوابیدہ عظمت کی علامت بن گیا۔
صرف چار سال بعد فوج نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ یکم اپریل سن 1964 کو جرنیلوں نے امریکہ کی حمایت سے بغاوت کی۔ انہوں نے کمیونسٹ سرگرمیوں کے ساتھ بغاوت کو جائز قرار دیا۔ نیشنل ٹروتھ کمیشن کے مطابق 21 سالوں کے دوران 434 سیاسی قیدیوں سمیت تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار مقامی لوگوں کو قتل کیا گیا۔ ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا اور اذیتیں دی گئیں۔ ان جرائم سے قانونی طور پر کبھی بھی نہیں نمٹا گیا۔ یہی ایک وجہ ہے کہ برازیل کی سیاست اب بھی فوج کے منفی اثر میں ہے۔
برازیل میں ڈیم ٹوٹنے سے تباہی
برازیل کے جنوب مشرقی علاقے میں حکام نے ٹوٹے ہوئے ڈیم کے کیچڑ کی لپیٹ میں آ کر چالیس افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ تقریباً ساڑھے تین سو افراد لاپتہ بتائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP/L. Correa
ڈیم کے کیچڑ نے انسانوں کو ہڑپ کر لیا
جمعہ پچیس جنوری کی سہ پہر میں ڈیم ٹوٹنے کے بعد سے متاثرین کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے۔ کان کے کیفے ٹیریا پر کھانا کھانے والے کئی کان کن کیچڑ کی زد میں آ گئے۔ ایسے ہی ایک کان کن نعش تلاش کرنے کے بعد باہر نکالی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/L. Correa
کیچڑ سے نعشوں کی تلاش میں مشکلات
برماڈینو شہر کے فائرفائٹرز کو کیچڑ میں سے نعشوں کو ڈھونڈنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تلاش کے اس کام میں شدید دشواری پیدا ہوتی جا رہی ہے کیونکہ کیچڑ میں نمی کم ہونے سے سختی پیدا ہونے لگی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/L. Correa
سینکڑوں لاپتہ افراد کے بچنے کی امیدیں کم
برماڈینو شہر کے نواح میں واقع ڈیم کے ٹوٹنے کے بعد حکام نے تصدیق کی ہے کہ ابھی تک کئی افراد لاپتہ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیچڑ میں دبے ہوئے لاپتہ افراد کے زندہ بچنے کی امیدیں کم ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP/L. Correa
مکان اور مارکیٹیں تباہ
ڈیم کے ٹوٹنے کے بعد پانی اور کیچڑ نے جہاں خام لوہے کی کان کو اپنی لپیٹ میں لیا وہاں قریبی بازار کی دکانیں اور مکانات بھی تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ مارکیٹ کی ایک دکان میں بیٹھا دکاندار پریشانی کے عالم میں اپنی تباہ شدہ دکان کو دیکھ رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/L. Correa
امدادی کارروائیاں
لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے فائربریگیڈز اور دوسرے امدادی عملے کے اراکین تلاش کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی تک کان کے اندر موجود کان کنوں کے حوالے سے کوئی حتمی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ کان کی انتظامیہ کے مطابق پھنسے ہوئے کان کنوں کے زندہ بچنے کی امید بہت کم ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/L. Correa
بھاری جانی و مالی نقصان
برماڈینو شہر کے نواح میں ڈیم ٹوٹنے سے وہاں کے مکینوں کو بھاری جانی و مالی نقصان کا سامنا ہے۔ ڈیم کے پھیلے ہوئے کیچڑ سے ہونے والے نقصان کا اندازہ ابھی تک نہیں لگایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/L. Correa
بےگھری کی صورت حال
ڈیم ٹوٹنے کے بعد پانی اور کیچڑ نے قریبی مکانات بھی تباہ کر دیے۔ سب سے زیادہ متاثرہ ولا فورٹیکو کی بستی ہے۔ اس حادثے میں لاپتہ افراد کی تعداد 366 بتائی گئی ہے۔ اب تک دو درجن کے قریب افراد زخمی حالت میں ہسپتال پہنچائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP/L. Correa
ویل کان کا ڈیم
برماڈینو کی خام لوہے کی کان ایک بہت بڑا کمپلیکس ہے۔ اس کان کی کھدائی سے نکلنے والے پانی کو کان کے باہر ذخیرہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس ذخیرے کو ایک بند کی شکل دے دی گئی تھی جو انجام کار ناقص ثابت ہوئی۔ اسی علاقے میں تین سال قبل بھی ایک ایسے ہی ڈیم کے ٹوٹنے سے انیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/Washington Alves
8 تصاویر1 | 8
دوبارہ جمہوریت آنے کے بعد ابتدائی چند سالوں میں، برازیل میں ایک پرانا مسئلہ جو فوجی آمریت کے دوران کافی دب گیا تھا، دوبارہ واضح ہو گیا: اور وہ بدعنوانی کا مسئلہ تھا۔ یہ بھی بنیادی طور پر اعلیٰ طبقے کے لیے ایک مسئلہ ہے، جو بظاہر عوامی فنڈز کو ضائع کرنا معمول سمجھتے ہیں۔
فیصلہ کن موڑ پر کھڑا پر ملک
21ویں صدی کے آغاز میں برازیل کو آخرکار بہتر بنانے کا احساس بائیں بازو کی ورکرز پارٹی (PT) کے لولا دا سلوا کو اقتدار میں لے آیا۔ سابق یونین لیڈر نے غربت سے لڑنے کے لیے پروگرام شروع کیے تھے۔ وہ اقتصادی ترقی کے سال تھے، اور جب لولا نے سن 2011 میں عہدہ چھوڑا تو برازیل دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن چکا تھا۔
لیکن ایک مرتبہ پھر سے حالات تبدیل ہوگئے۔ ملک ایک معاشی بحران میں پھنستا گیا۔ اس میں تیل کمپنی پیٹروبراس کے گرد گھومتا کرپشن اسکینڈل بھی شامل تھا۔ اس کے بعد ایک سیاسی، سماجی اور اخلاقی بحران پیدا ہو گیا جس نے برازیل کو آج تک اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
بحران انتہا پسندوں کے لیے ہمیشہ اچھا وقت ہوتا ہے اور اسی طرح سن 2018 میں انتہائی دائیں بازو کے سیاسی اعتبار سے ناتجربہ کار شخص جیئر بولسونارو صدر منتخب ہوگئے۔ وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ریاست کو منہدم کرنا شروع کر دیا ہے۔ تعلیم، ثقافت اور سب سے بڑھ کر ماحولیاتی تحفظ کے لیے فنڈز میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کیں۔ ان کی حکومت میں برازیل کے سب سے بڑے خزانوں میں سے ایک، ایمیزون کے جنگل کی تباہی ایک بار پھر تیز ہو گئی ہے۔ بولسونارو فوج کو بھی ریاستی معاملات میں لے آئے ہیں اور انہوں نے انتہائی قدامت پسند ایوینجلیکل گرجا گھروں کو اپ گریڈ کر دیا ہے۔
اپنی آزادی کے 200 سال بعد برازیل ایک بار پھر ایک دوراہے پر کھڑا ہے: کیا یہ زیادہ جدید، منصفانہ ہوتا جا رہا ہے اور کیا یہ آخر کار اپنی صلاحیت کو سب کے فائدے کے لیے استعمال کر سکتا ہے - یا پھر یہ واپس ماضی کی جانب ہی لوٹ رہا ہے؟