تبصرہ: دہشت گردانہ حملوں سے مکمل تحفظ ناممکن
11 جنوری 2010کرسمس کے دن یعنی 25 دسمبر کو ڈیٹرائٹ میں دہشت گردانہ حملے کی جو کوشش ناکام رہی، اس کے بارے میں ابتدائی تفتیشی رپورٹ کے نتائج بڑے حیران کن ہیں۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے اپنا کام صحیح طور پر انجام نہیں دیتے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ سلامتی کے ذمہ دار امریکی اداروں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ جزیرہ نما عرب سے القاعدہ کی کوئی ذیلی تنظیم امریکی سرزمین پر حملے کے منصوبوں کو عملی شکل دینے کی تیاریاں کئے بیٹھی ہے۔
امریکی خفیہ اداروں کا خیال تھا کہ یہ دہشت گرد افریقہ سے باہر کچھ بھی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ پریشان کن بات تو یہ ہے کہ ریاستی سلامتی کے نگران امریکی محکموں کے اس بظاہر متکبرانہ خیال کی قیمت سینکڑوں انسانوں کو اپنی جان کے ساتھ ادا کرنا پڑ سکتی تھی۔
ایک اور ناقابل فہم بات یہ بھی ہے کہ امریکی سیکیورٹی ادارے بے تحاشا اعدادوشمار تو جمع کرتے جا رہے ہیں، لیکن امریکہ میں کوئی بھی فرد یا ریاستی ادارہ اس ناکام حملے میں اپنا قصور تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما اعلان کر چکے ہیں کہ سیکیورٹی کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔ پھر اگر دوبارہ ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے توسیکیورٹی اداروں کو اُس کی ذمہ داری بھی اپنے سر لینا ہو گی۔ مطلب یہ کہ اگر کسی ادارے کی کارکردگی میں کہیں کوئی کمی رہ جاتی ہے، تو اس کے ذمہ داران کو قانون کے سامنے لایا جائے۔
دوسرے لفظوں میں امریکی سیکیورٹی اداروں کو ایسے ہر ممکنہ حملے کو اس کی کوشش سے پہلے ہی ناکام بنانا ہو گا۔ لیکن ایسا کر سکنا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہ آج کے دور کے دہشت گرد انتہائی چالاک ہیں۔
اگر سیکیورٹی ادارے مائع بموں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو دہشت گرد پاؤڈر بم استعمال کرنے لگتے ہیں۔ اب ہر مسافر کی تفصیلی تلاشی لی جاتی ہے اور مخصوص ممالک سے آنے والے افراد کی تو مکمل ڈبل اسکریننگ کی جاتی ہے۔ اگر کسی دہشت گرد کے پاس کسی یورپی ملک کا پاسپورٹ ہو تو پھر کیا ہوگا؟ اور شاید ایسا وقت بھی دور نہیں کہ دہشت گرد خود کش حملوں کے لئے مرد حملہ آوروں کی جگہ خواتین کو استعمال کرنے لگیں۔
آخر میں ایک بات یہ بھی کہ ہوائی اڈوں پر نصب اسکیننگ مشینیں بھی تو انسان ہی چلاتے ہیں۔ انسان کسی بھی وقت غلطی کر سکتا ہے۔ لہٰذا دہشت گردانہ حملوں سے سو فیصد محفوظ رہنے کی ضمانت کوئی بھی نہیں دے سکتا، کسی ہوائی جہاز میں اور نہ ہی کسی ریل گاڑی میں۔
تبصرہ: کرسٹینا بیرگمان / امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک