تبلیغی جماعت پر سعودی پابندی: بھارتی مسلمان کیا کہتے ہیں؟
15 دسمبر 2021سعودی عرب کی وزارتِ اسلامی امور نے کسی تنظیم کا نام لیے بغیر تبلیغ کو ''دہشت گردی کے دروازوں میں سے ایک ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس تنظیم کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی گزشتہ ہفتے ایک ٹویٹ کے ذریعہ اطلاع دی۔
بعد میں اسلامی امور کے وزیر ڈاکٹر عبداللطیف شیخ نے اپنی ٹویٹ کے ذریعہ بتایا کہ مساجد کے امام اور خطیبوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ جمعے کے خطبوں میں تبلیغی جماعت اور اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے لوگوں کو متنبہ کریں۔
انہو ں نے دیگر ٹوئٹ بھی کیے جن میں کہا گیا ہے کہ امام اور خطیب اپنے خطبات میں لوگوں کو اس گروپ کے اسلام سے انحراف، گمراہ کن خیالات اور ان کی اہم غلطیوں سے آگاہ کریں اور ''دہشت گردی کے دروازوں میں سے ایک‘‘ اس گروپ سے سماج کو لاحق خطرات کے بارے آگاہ کریں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس گروپ سے کسی طرح کی وابستگی ممنوع ہے۔
پابندی کا حکم غیر واضح
سعودی وزیر برائے اسلامی امور نے اپنے بیان میں بھارت کی تبلیغی جماعت یا کسی دوسری بھارتی مسلم تنظیم کا واضح ذکر نہیں کیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ یہ حکم افریقہ کے ایک سیاسی گروپ الاحباب کی تبلیغی سرگرمیوں کے حوالے سے ہے۔ تاہم تبلیغی نام کی وجہ سے اسے مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے ذریعہ سن 1926 میں بھارتی صوبے ہریانہ کے میوات قصبے میں قائم کی جانے والی تحریک سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی اور سماجی تنظیموں کی نمائندہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کا بیان پوری طرح واضح نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے بھارت میں گومگو کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔
دیوبندی مکتب ِفکر سے تعلق رکھنے والی تبلیغی جماعت اس وقت دنیا کے 180سے زائد ملکوں میں سرگرم ہے اور تقریباً 40 کروڑ افراد اس سے وابستہ ہیں۔ اس کا مرکز نئی دہلی کے بستی حضرت نظام الدین میں ہے۔ تبلیغی جماعت پر نگاہ رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کو کبھی بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔
اصل اختلاف نظریاتی ہے
تبلیغی جماعت پر تحقیقاتی کام کرنے والے صحافی ضیاء سلام کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت نے تبلیغی جماعت کو دہشت گرد نہیں کہا ہے البتہ سلفیوں اور تبلیغیوں کے اختلافات کافی پرانے ہیں اور حکومت نے اسی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے۔
ضیاء سلام نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں کہا،''بیان کی غلط تشریح کی گئی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سعودی عرب میں تبلیغی جماعت کا کبھی بھی خیرمقدم نہیں کیا گیا۔ انہیں وہاں چلّہ وغیرہ کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن سے دور رہتے ہیں۔ وہ قرآن کی تفیہم سے لوگوں کو دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن پڑھیے ضرور لیکن اس کو سمجھنا یا سمجھانا عالموں کا کام ہے جبکہ قرآن کے لحاظ سے یہ بات بالکل غلط ہے۔‘‘
’انسائیڈ دی تبلیغی جماعت‘ کے مصنف ضیاء سلام کہتے ہیں،''تبلیغی جماعت والے قرآن سے زیادہ 'فضائل اعمال‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ اپنے زیراثر مساجد میں خواتین کو آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے آنے سے مسجد نعوذ باللہ ناپاک ہوجاتی ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔‘‘
دوسری طرف بھارت میں سلفی مسلک کے ماننے والوں کی سب سے بڑی جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے صدر مولانا اصغر امام مہدی سلفی کا کہنا تھا کہ ابھی صورت حال پوری طرح واضح نہیں ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''یہ نظریاتی اختلافات کا معاملہ نہیں ہے۔ مسئلے کو پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دراصل حکومتوں کے اپنے معاملات اور نزاکتیں ہوتی ہیں۔ جب کچھ ایسے عناصر پیدا ہوجاتے ہیں جنہیں حکومتیں اپنے لیے مسئلہ سمجھنے لگتی ہیں تو اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کارروائی کرتی ہیں۔‘‘ مولانا سلفی نے اس حوالے سے سعودی حکومت کی طرف سے ماضی میں اخوان المسلمون کے خلاف کیے گئے اقدامات کا حوالہ دیا۔
بھارتی مسلمانوں کا ردعمل
مسلکی اختلافات کے باوجود بھارت میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی تنظیموں نے سعودی عرب حکومت کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے تاہم جمعیت علماء ہند جیسی بڑی مسلم جماعت نے کافی محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سعودی حکومت سے ان جماعتوں کے رہنماؤں کے ذاتی تعلقات اس کی وجہ ہے۔
برصغیر کی تاریخی دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند نے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی نے کہا،''جزوی اختلافات کے باوجود تبلیغی جماعت اپنے مشن پر کام کر رہی ہے، اس سے وابستہ افراد اور جماعت کے مجموعی مزاج پر شرک و بدعت اور دہشت گردی کا الزام قطعی بے معنی اور بے بنیاد ہے۔ دارالعلوم دیوبند سعودی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور تبلیغی جماعت کے خلاف اس قسم کی مہم سے اجتناب کرے۔‘‘
یہ بات دلچسپ ہے کہ سن 2017 میں دارالعلوم دیوبند نے اپنے کیمپس میں تبلیغی جماعت کی تمام طرح کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس وقت مولانا نعمانی کے دستخط سے جاری ایک '' ضروری وضاحت‘‘ میں کہا گیا تھا کہ ،''یہ فیصلہ دارالعلوم دیوبند کو کسی بھی انتشار سے دور رکھنے اور اس کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے۔‘‘
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے سعودی حکومت کے حکم کو غلط اور غیر منصفانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے تحت مذہبی تنظیموں کو ملک میں اپنی سرگرمیاں انجام دینے کی آزادی ہونی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا،''تبلیغی جماعت ایک پُر امن جماعت ہے اور وہ اسلام کے لیے سرگرم ہے۔‘‘
بھارتی دانشور،انگلش جریدہ ''ملی گزٹ‘‘ کے مدیر اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ سلفی حضرات کو تبلیغی جماعت کے چلّہ وغیرہ سے تکلیف ہوسکتی ہے۔ اسی طرح وہ قرآن کی جگہ''فضائل اعمال‘‘ اور ''حیات الصحابہ‘‘ کو فوقیت دیتے ہیں اوراحادیث کے صحیح مجموعے نہیں پڑھتے۔ یہ بھی قابل اعتراض ہے لیکن انہیں دہشت گرد کہنا غلط ہے کیونکہ ان کی اٹھان ہی ایسی نہیں ہے۔‘‘
تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کی پراسرار خاموشی
اتنے بڑے فیصلے کے دس روز گزر جانے کے باوجود بھارت میں تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کی طرف سے کوئی بیان اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔
ڈی ڈبلیو نے تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔ موجودہ امیر مولانا محمد سعد کے ایک قریبی نے پہلے تو بات کرنے کا وعدہ کیا تاہم بعد میں ٹال گئے۔
تبلیغی جماعت کے اس رویے کا اثر نہ صرف اس جماعت پر بلکہ مجموعی طور پر بھارتی مسلمانوں پر پڑ نے لگا ہے۔ اس کی آڑ میں بعض مسلم دشمن جماعتیں ایک بار پھر سرگرم ہوگئی ہیں۔
صحافی ضیاء سلام کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کا اسلام کے متعلق نقطہ نظر بالکل غیرعملی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دین صرف مسجد تک محدود ہے۔ مسجد میں بیٹھیے، چار دن، چالیس دن اور چار مہینے کا چلّہ لگائیے تو آپ بڑے دیندار ہیں۔ حالانکہ دین تو پوری زندگی ہے۔ وہ کہتے ہیں'' دیگر جماعتوں نے دیوبند میں ان کے حق میں بولا ہے لیکن تبلیغی والے خود کیوں خاموش ہیں۔ مولانا سعد کہاں ہیں؟ ان کا میڈیا پرسن کہاں ہے؟
شدت پسند ہندو تنظیموں کے پو بارہ
تبلیغی جماعت کے متعلق سعودی عرب کا فیصلہ اور خود جماعت کی خاموشی سے بھارت میں شدت پسند ہندو تنظیموں کے پوَ بارہ ہوگئے ہیں۔انہوں نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت سے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ تیز کردیا ہے۔
تقریباً نصف صدی سے صحافت سے وابستہ ضیاء سلام کہتے ہیں کہ بھارتی میڈیا تو پہلے سے ہی اسلام مخالف ہے۔ کووڈ کے زمانے میں تبلیغی جماعت کو جس طرح ڈھال بنا کر پورے مسلمانوں پر حملہ کیا گیا اسی طرح ایک بار پھر کیا جارہا ہے۔ چونکہ تبلیغی جماعت بھارت کی سب سے بڑی مسلم جماعت ہے اس لیے اس پر حملے کا واضح مطلب مسلمانوں کونشانہ بنانا ہے۔
تاہم بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ پابندی لگانے کا فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔ اسلامی امور کے ماہر اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اختر الواسع کا کہنا تھا کہ اگر یہاں تبلیغی جماعت پر پابندی کا مطالبہ ہوگا تو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہاں قانون کی پاسداری ہے اور دستور نے سب کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دی ہے۔ ہمیں دستور کا تحفظ حاصل ہے۔ لہٰذا اگر یہاں ایسا کوئی مطالبہ ہوتا ہے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔