’تتلی کی طرح تیرنے والے‘ باکسنگ لیجنڈ محمد علی کا انتقال
4 جون 2016عالمی وقت کے مطابق ہفتہ چار جون کی صبح امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ مقامی وقت کے مطابق محمد علی کا انتقال جمعے کی شام امریکی ریاست ایریزونا کے ایک ہسپتال میں ہوا، جہاں وہ زیر علاج تھے۔
محمد علی کو نظام تنفس میں چند پیچیدگیوں کا سامنا تھا اور وہ اپنے گھر کے قریب شہر فِینِکس کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ باکسنگ کی دنیا کے یہ عظیم کھلاڑی گزشتہ تین عشروں سے بھی زائد عرصے سے پارکِنسن کی بیماری کا شکار بھی تھے، جس کی وجہ سے پچھلے کئی برسوں سے ان کی جسمانی حالت مسلسل خراب ہوتی چلی گئی تھی۔
محمد علی، جنہیں The Greatest یا ’عظیم ترین‘ بھی کہا جاتا تھا، ایک پیشہ ور باکسر کے طور پر تین مرتبہ عالمی چیمپئن بنے تھے۔ وہ اس کھیل سے 1981 میں ریٹائر ہو گئے تھے۔ 17 جنوری 1942 کو امریکی ریاست کینٹکی میں لوئس وِل کے مقام پر پیدا ہونے والے محمد علی کا پیدائش نام کیسیئس کلے تھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنا نام محمد علی رکھ لیا تھا۔
ایک باکسر کے طور پر محمد علی نے، جب ابھی وہ کیسیئس کلے ہی تھے، اپنا پہلا بڑا ٹائٹل اولمپکس میں جیتا تھا۔ انہوں نے اولمپکس میں لائٹ ہیوی ویٹ کیٹیگری میں گولڈ میڈل جیتنے کے بعد اپنے لیے پیشہ ورانہ باکسنگ کا راستہ چنا اور 22 برس کی عمر میں ایک مقابلے میں عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن سونی لِسٹن کو ناک آؤٹ کر کے انہوں نے نہ صرف پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا بلکہ اس کے بعد وہ اسلام قبول کرتے ہوئے امریکا میں ’نیشن آف اسلام‘ نامی تحریک میں بھی شامل ہو گئے تھے۔
اسلام قبول کرتے ہوئے محمد علی نے اپنے ایک عوامی اعلان میں کہا تھا کہ اب ان کا نام محمد علی ہے اور وہ کیسیئس کلے کے طور پر اپنے ’غلامانہ نام کو مسترد‘ کرتے ہیں۔
محمد علی نے امریکا میں شہری حقوق اور امن کی تحریک کے لیے بھی بہت کام کیا تھا اور انہوں نے امریکی فوج میں لازمی سروس سے انکار کرتے ہوئے ویت نام میں امریکی جنگ کی بھی زبردست مخالفت کی تھی۔ محمد علی دنیا کی معروف اور مقبول ترین شخصیات میں شمار ہوتے تھے اور انہیں برطانوی نشریاتی ادارے کی طرف سے کھیلوں کی شعبے میں ’صدی کی اہم ترین شخصیت‘ بھی قرار دیا گیا تھا۔
محمد علی کی موت پر نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنے ایک تفصیلی تعزیت نامے میں لکھا ہے کہ ’عظیم ترین‘ محمد علی نے ہر کسی کو ہرا دیا لیکن وہ خود پارکِنسن سنڈروم کے خلاف اپنی جنگ ہار گئے۔ محمد علی کی باکسنگ کے رنگ میں جملے بازی اور اپنے مخالفین کو ذہنی طور پر زچ کر دینے کی عادت بھی بہت مشہور تھی۔
1964 میں عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن سونی لِسٹن کے ساتھ اپنے مقابلے کے حوالے سے ایک انٹرویو میں علی نے کہا تھا، ’’وہ اتنا بدصورت ہے کہ اسے عالمی چیمپئن نہیں ہونا چاہیے۔ کسی ورلڈ چیمپئن کو میری طرح پرکشش اور خوبصورت شخصیت کا مالک ہونا چاہیے۔‘‘
روئٹرز کے مطابق باکسنگ کے رنگ میں اور اس سے باہر بھی محمد علی کا موٹو ایک ہی تھا، جسے وہ بار بار دہراتے تھے: ’’تتلی کی طرح تیرتے رہو اور شہد کی مکھی کی طرح کاٹو!‘‘
محمد علی باکسنگ رنگ میں اپنے حریف کھلاڑیوں پر اس طرح حملے کرتے تھے، جیسے شہد کی مکھی اڑ کر آئے اور اچانک کسی کو کاٹ لے۔ لیکن محمد علی کی موت کے ساتھ ’تتلی کا تیرنا‘ ختم ہو گیا ہے۔