یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود ینکر واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔ وہ اس دورے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ دورہ یورپی یونین کی جانب سے امریکا کے ساتھ کسی تجارتی جنگ کے آغاز کو روکنے کی آخری سعی ہے۔
اشتہار
متعدد یورپی رہنما بہ شمول فرانسیسی صدر امانوئیل ماکروں اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کوشش کر چکے ہیں کہ وہ کسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یورپی یونین کی مصنوعات پر اضافی محصولات کے نفاذ کو روکیں، تاہم اب تک اس بابت ڈونلڈ ٹرمپ کے موقف میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی ہے۔
ژاں کلود ینکر کا شمار یورپی یونین کے سینیئر ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے اور وہ لکسمبرگ کے وزیراعظم کے بہ طور بھی ایک طویل عرصے تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ینکر کے اس دورے میں یورپی یونین کی کمشنر برائے تجارت سیسیلیا مالمسٹروم بھی ہم راہ ہیں۔ مالمسٹروم کے مطابق ینکر کی اس دورے میں کوشش ہو گی کہ وہ وسیع تر سوچ کے ساتھ اس معاملے کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
امریکا دھمکی دے چکا ہے کہ وہ یورپی کاروں پر اضافی محصولات کا نفاذ کر سکتا ہے، تاہم اس بابت یورپی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایسے کسی امریکی اقدام سے ’عالمی اقتصادیات میں بھونچال‘ پیدا ہو جائے گا۔
اگر صدر ٹرمپ یورپی کاروں پر اضافی محصولات عائد کرتے ہیں، تو یہ بین الاوقیانوسی تعلقات کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو گا۔ اس سے قبل امریکا نے یورپی یونین کی فولاد اور ایلومینیم مصنوعات پر محصولات عائد کی تھیں۔ ٹرمپ یورپی اتحادیوں کی مزاحمت کے باوجود ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے بھی نکل چکے ہیں اور انہوں نے بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدے سے بھی علیحدگی اختیار کر لی ہے۔
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Macdougall
9 تصاویر1 | 9
امریکا کی جانب سے یورپی دھاتی صنعت پر محصولات عائد کرنے کے جواب میں یورپی یونین نے امریکی جینز اور ہارلے ڈیوڈسن موٹرسائیکلوں سمیت امریکی وِسکی پر محصولات عائد کر کے جواب دیا تھا۔
اب کاروں پر محصولات کے نفاذ کے خدشے کے پیش نظر یورپی یونین امریکی مصنوعات کی فہرست مرتب کرنے میں مصروف ہے، جن پر جوابی محصولات عائد کی جا سکتی ہیں۔
ینکر نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں خبردار کیا تھا کہ امریکا کے ہر اقدام کے جواب میں مناسب جواب دیا جائے گا۔ منصرین کے مطابق اسی تناظر میں ینکر کا دورہ امریکا نہایت اہم ہے اور اگر یہ دورہ ناکام ہوتا ہے، تو امریکا اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی جنگ کو روکنا پھر آسان نہیں ہو گا۔