انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ جرمنی کے اضافی تجارتی حجم کا مطلب ہے کہ جرمن مصنوعات کی طلب زیادہ ہے۔ جرمن وزیر اقتصادیات جلد واشنگٹن کا دورہ کرنے والے ہیں جہاں وہ ٹیکسوں میں اضافے کے معاملے پر بات چیت کریں گے۔
اشتہار
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے اسٹیل اور ایلومینیئم پر نئے ٹیکس لاگو کرنے پر امریکی حکومت اور اس کے تجارتی پارٹنر ممالک کے درمیان تناؤ موجود ہے۔ ایسے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے آج اتوار 18 مارچ کو جرمنی کے اضافی تجارتی حجم کا دفاع کیا ہے۔ میرکل نے اپنے ہفتہ وار ویڈیو پوڈ کاسٹ میں کہا، ’’اضافی تجارتی حجم یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری مصنوعات کی طلب ہے۔ اور قدرتی بات ہے کہ ہم مستقبل میں بھی اسے قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
تاہم میرکل نے یہ امکان بھی ظاہر کیا کہ ملک میں داخلی سطح پر بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب جرمنی کا اضافی تجارتی حجم وقت کے ساتھ کم ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ سال 2017ء کے دوران جرمنی کا اضافی تجارتی حجم 244 بلین یورو تھا جبکہ اس سے ایک سال قبل یہ حجم 248 بلین یورو رہا تھا۔
جرمن چانسلر کا یہ بھی کہنا تھا کہ تیل کی قیمتوں کے حوالے سے کرنسی کی شرح تبادلہ میں آنے والا رد وبدل بھی ٹریڈ سرپلس یا اضافی تجارتی حجم کی وجہ بنا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حالیہ کچھ عرصے کے دوران جرمنی کے کافی زیادہ ٹریڈ سرپلس کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ہفتے قبل جب یہ اعلان کیا تھا کہ وہ امریکا میں درآمد کیے جانے والے اسٹیل پر 25 فیصد جبکہ ایلومینیئم پر 10 فیصد اضافی ٹیکس عائد کر رہے ہیں تو امریکا کے کئی اتحادی ممالک کی طرف سے اس پر شدید ردعمل اور تحفظات سامنے آئے تھے۔ امریکی معاشی حلقوں نے بھی اس پیشرفت کو امریکی معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیا تھا خاص طور پر ان کمپنیوں اور ان میں کام کرنے والے ورکرز کے لیے جن کا زیادہ تر انحصار درآمد شدہ مصنوعات پر ہے۔
جرمن برآمدات کے سُپر سٹار شعبے
آج کل جرمنی ایک ہزار ارب یورو سے زیادہ مالیت کی مصنوعات دنیا کو برآمد کر رہا ہے۔ اس پکچر گیلری میں ہم آپ کو جرمنی کے دَس کامیاب ترین برآمدی شعبوں سے متعارف کروا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
ہنگامہ خیز ... لیکن ٹاپ ٹین کی منزل سے ابھی دُور
ایک زبردست منظر: ایک زرعی فارم کے بالکل قریب سے گزرتا ایک کئی منزلہ بحری جہاز، جو کل کلاں کئی ہزار سیاحوں کو لے کر دُنیا کے وسیع و عریض سمندروں پر محوِ سفر ہو گا۔ جرمن شہر پاپن برگ میں تیار کردہ اس جہاز کو دریائے ایمز کے راستے بحیرہٴ شمالی میں لے جایا جا رہا ہے۔ صوبے لوئر سیکسنی کے اس بڑے کاروبار کی جرمن برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں شمولیت کی منزل لیکن ابھی کافی دُور ہے۔
تصویر: AP
غیر مقبول برآمدی مصنوعات
رائفلز ہوں، آبدوزیں یا پھر لیپرڈ نامی ٹینک، دُنیا بھر میں ’میڈ اِن جرمنی‘ ہتھیاروں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ امن پسند جرمن معاشرے کے لیے یہ کامیابی کسی حد تک تکلیف دہ بھی ہے۔ ویسے یہ کامیابی اتنی بڑی بھی نہیں کیونکہ جرمنی کے اصل برآمدی سٹار (ٹاپ ٹین فہرست میں نمبر نو اور دَس) بحری جہاز اور ٹینک نہیں بلکہ انسانوں اور جانوروں کی اَشیائے خوراک یا پھر ربڑ اور پلاسٹک سے بنی مصنوعات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
دھاتیں
جرمن محکمہٴ شماریات نے ابھی ابھی اپنے جو سالانہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اُن میں گزشتہ سال کی سُپر سٹار جرمن برآمدی مصنوعات میں ساتویں نمبر پر ’دھاتیں‘ ہیں مثلاً المونیم، جس کا ایک استعمال یہ بھی ہے کہ اس کی مدد سے چاکلیٹ کو تازہ رکھا جاتا ہے۔ 2015ء میں جرمنی نے تقریباً پچاس ارب یورو مالیت کی دھاتیں برآمد کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Junos
دیگر قسم کی گاڑیاں
جرمنی میں کاروں کے ساتھ ساتھ اور کئی قسم کی گاڑیاں بھی تیار کی جاتی ہیں مثلاً وہ گاڑیاں، جو کوڑا اُٹھانے کے کام آتی ہیں لیکن اسی صف میں ٹرکوں، بسوں اور اُن تمام گاڑیوں کا بھی شمار ہوتا ہے، جو کاریں نہیں ہیں لیکن جن کے چار پہیے ہوتے ہیں۔ 2015ء میں جرمنی کی بارہ سو ارب یورو کی مجموعی برآمدات میں سے ان مخصوص قسم کی گاڑیوں کا حصہ ستاون ارب یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Wolf
ادویات
جرمنی کی دوا ساز صنعت کی ساکھ پوری دُنیا میں بہت اچھی ہے۔ آج بھی اس صنعت کے لیے وہ بہت سی ایجادات سُود مند ثابت ہو رہی ہیں، جو تقریباً ایک سو سال پہلے ہوئی تھیں۔ اگرچہ بہت سی ادویات کے پیٹنٹ حقوق کی مدت ختم ہو چکی ہے تاہم جرمن ادارے اُنہیں بدستور بھاری مقدار میں تیار کر رہے ہیں۔ ان ادویات کی مَد میں جرمنی کو سالانہ تقریباً ستّر ارب یورو کی آمدنی ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Endig
برقی مصنوعات
بجلی کام کی چیز بھی ہے لیکن خطرناک بھی ہے۔ کم وولٹیج کے ساتھ رابطے میں آنا پریشانی کا باعث بنتا ہے لیکن زیادہ وولٹیج والی تاروں سے چھُو جانا موت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ برقی مصنوعات بنانا مہارت کا کام ہے اور اس حوالے سے جرمن اداروں کی شہرت بہت اچھی ہے۔ 2015ء میں برقی مصنوعات تیار کرنے والے جرمن اداروں کا مجموعی برآمدات میں حصہ چھ فیصد رہا۔
تصویر: picture alliance/J.W.Alker
ڈیٹا پروسیسنگ آلات اور آپٹک مصنوعات
تقریباً ایک سو ارب یورو کے ساتھ جرمن کے اس برآمدی شعبے کا مجموعی برآمدات میں حصہ آٹھ فیصد سے زیادہ رہا۔ بہت سے جرمن ادارے گزشتہ کئی نسلوں کے تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی اعلیٰ معیار کی حامل تکنیکی اور سائنسی مصنوعات تیار کر رہے ہیں، مثلاً ژَین آپٹک لمیٹڈ نامی کمپنی کا تیار کردہ یہ لیزر ڈائی اوڈ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kasper
کیمیائی مصنوعات
جرمنی کے بڑے کیمیائی ادارے ادویات ہی نہیں بنا رہے بلکہ وہ مختلف طرح سے استعمال ہونے والی گیسیں اور مائعات بھی تیار کرتے ہیں۔ یہ شعبہ سالانہ ایک سو ارب یورو سے زیادہ کے کیمیکلز برآمد کرتا ہے۔ بائر اور بی اے ایس ایف جیسے اداروں کا جرمن برآمدات میں حصہ تقریباً دَس فیصد بنتا ہے اور جرمنی کی برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں اس شعبے کا نمبر تیسرا ہے۔
تصویر: Bayer AG
مشینیں
جرمنی: انجینئروں کی سرزمین۔ یہ بات ویسے تو کہنے کو کہہ دی جاتی ہے لیکن اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ جرمنی کی برآمدات میں مشینیں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 2015ء میں جرمنی نے مجموعی طور پر 169 ارب یورو کی مشینیں برآمد کیں۔ اس شعبے کی کامیابی کا انحصار عالمی معاشی حالات پر ہوتا ہے۔ عالمی معیشت بحران کا شکار ہو تو جرمن مشینوں کی مانگ بھی کم ہو جاتی ہے۔
... جی ہاں، کاریں۔ جرمنی کا کوئی اور شعبہ برآمدات سے اتنا نہیں کماتا، جتنا کہ اس ملک کا موٹر گاڑیاں تیار کرنے والا شعبہ۔ جرمن محکمہٴ شماریات کےتازہ سالانہ اعداد و شمار کے مطابق فوکس ویگن، بی ایم ڈبلیو، پورشے اور ڈائملر جیسے اداروں کی بنائی ہوئی کاروں اور فاضل پُرزہ جات سے جرمنی کو 226 ارب یورو کی سالانہ آمدنی ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
10 تصاویر1 | 10
امریکی صدر کے اس فیصلے نے دنیا بھر میں تجارتی جنگ کے خدشات بھی پیدا کر دیے ہیں۔ یورپی یونین نے بھی امریکی منصوعات کی درآمد پر ٹیکس عائد کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ ان میں خاص طور پر وہسکی، جینز اور موٹر سائیکل وغیرہ شامل ہیں۔
جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائیر آج اتوار 18 مارچ کو امریکا روانہ ہو رہے ہیں جہاں وہ امریکی حکومت کے ساتھ جرمنی کو ان تجارتی ٹیکسوں میں چھوٹ دینے کے لیے بات چیت کریں گے۔
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔