تجارتی روابط بچانے کی کوشش، یورپی یونین کے کمشنر ایران میں
19 مئی 2018
یورپی یونین کے کمشنر برائے توانائی نے ایران کا دورہ شروع کر دیا ہے۔ اس دوران وہ ایرانی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں تجارتی روابط میں بہتری اور یورپی کمپنیوں کی کاروباری سرگرمیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ یورپی یونین کے کمشنر برائے توانائی مِگیئل آریاز کنیاتے ہفتے کے دن تہران میں ایرانی جوہری توانائی کی آرگنائزیشن کے سربراہ علی اکبر صالحی سے ملے۔ اس موقع پر صالحی نے کہا کہ اگر یورپی یونین جوہری ڈیل کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہتی ہے تو ایران بھی اس ڈیل پر کاربند رہے گا۔
جوہری معاہدے سے امريکا کی دستبرداری: ايرانی کاروباری ادارے پريشان
03:01
بتایا گیا ہے کہ اس دورے کے دوران کنیاتے ایرانی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں تیل اور گیس کی خریداری جاری رکھنے کے حوالے سے نئے منصوبہ جات کو بھی زیربحث لائیں گے۔
ایرانی حکام نے انیس مئی کو بتایا ہے کہ یورپی یونین کے کمشنر برائے توانائی ہفتے کے دن ماحولیات کے ایرانی وزیر عیسیٰ کلانتاری اور آئل منسٹر بیجن نامدار زنکنہ سے بھی ملیں گے۔ اس دو روزہ دورے کے دوران بروز اتوار کنیاتے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف سے بھی ایک اہم ملاقات کررہے ہیں۔
امریکا کی طرف سے عالمی جوہری ڈیل سے دستبرداری کے نتیجے میں ایسے خدشات لاحق ہیں کہ ایران میں فعال یورپی کمپنیاں بھی امریکی پابندیوں کی زد میں آ سکتی ہیں۔ یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ سن دو ہزار پندرہ میں طے پانی والی تاریخی جوہری ڈیل پر عملدرآمد جاری رکھتے ہوئے ایران کے ساتھ کاروباری مراسم ختم نہیں کرے گی۔
کنیاتے کا یہ دورہ ایران یورپی یونین کے اسی عزم کا ایک برملا اظہار قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عالمی جوہری ڈیل سے دستبرداری کے بعد کنیاتے ایسے پہلے اعلیٰ یورپی اہلکار ہیں، جو ایران کا دورہ کر رہے ہیں۔
تاہم ایران میں فعال متعدد کمپنیوں بشمول فرانس کی ٹوٹل اور ہالینڈ کی میرزک نامی آئل کمپنیوں نے خبردار کیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے مکمل طور پر نافذ العمل ہونے کے نتیجے میں ان کا ایران میں کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ آئندہ چھ ماہ کے دوران ایران پر امریکی پابندیاں مکمل نافذ ہو جائیں گی۔
ایران اور یورپی یونین کے مابین تجارت کا حجم تقریبا بیس بلین یورو بنتا ہے، جن میں برآمدات اور درآمدات کی شرح برابر ہے۔ اس میں یورپی یونین ایران سے نوے فیصد تیل خریدتا ہے، جو بنیادی طور پر اسپین، فرانس، اٹلی، یونان ، ہالینڈ اور جرمنی کی توانائی کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
عالمی سطح پر تیل کے ذخائر کے حوالے سے ایران چوتھا سب سے بڑا ملک ہے، جو اپنا 70 فیصد خام تیل چین اور جنوبی ایشیائی ممالک کو فروخت کرتا ہے۔ یورپ کو بیچنے والے ایرانی تیل کی شرح صرف بیس فیصد ہی ہے۔ اسی طرح قدرتی گیس کے ذخائر کے حوالے سے ایران دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے لیکن بنیادی انفرا اسٹرکچر نہ ہونے کے باعث اس کی برآمد انتہائی کم ہے۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔