پاکستانی سکيورٹی دستے حملوں کی زد ميں، متعدد فوجی ہلاک
16 اکتوبر 2020
پاکستان ميں بدھ اور جمعرات کو دو مختلف حملوں ميں بيس سکيورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔ شمالی وزیرستان ميں تحريک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں نے جب کہ بلوچستان ميں مبينہ طور پر عليحدگی پسندوں نے ملکی سکيورٹی دستوں کو نشانہ بنايا۔
اشتہار
پاکستان کے جنوب مغربی حصے ميں نيم فوجی دستوں کے ايک قافلے پر ايک راکٹ حملے اور فائرنگ کے نتيجے ميں کم از کم سات فوجی اور سات محافظ ہلاک ہو گئے۔ مذکورہ سکيورٹی دستے 'آئل اينڈ گيس ڈيولپمنٹ کمپنی لميٹڈ‘ (OGDCL) کے ايک قافلے کے ہمراہ تھے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اس حملے ميں او جی ڈی سی ايل کے تمام اہلکار بچ گئے مگر چودہ سکيورٹی اہلکار کی ہلاکت ہوئی۔ يہ حملہ جمعرات کے روز ہوا۔ فوج نے بتايا ہے کہ جائے وقوعہ کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے اور حملہ آوروں تک پہنچنے کے ليے پورے علاقے کی تلاشی لی جا رہی ہے۔
قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستانی صوبہ بلوچستان ميں کافی عرصے سے مسلح عليحدگی پسند تحريک جاری ہے۔ يہ عليحدگی پسند الزام لگاتے ہيں کہ پاکستانی حکومت نے صوبے کے وسائل سے فائدہ اٹھايا مگر اس صوبے کے رہائشيوں کو اس سے فائدہ نہ پہنچا۔ وہ پاکستان سے عليحدگی کے ليے متحرک ہيں۔ سکيورٹی حکام کا کہنا ہے کہ عليحدگی پسند تمام بلوچ شہريوں کی رائے کی نمائندگی نہيں کرتے اور يہ کہ عليحدگی پسندوں کو غير ملکی حمايت حاصل ہے۔
جمعرات کو او جی ڈی سی ايل کے قافلے پر حملے کی ذمہ داری ايک مقامی گروہ نے قبول کر لی ہے مگر آزاد ذرائع سے فی الحال اس کی تصديق نہيں ہو پائی ہے۔ آئی ايس پی آر کے مطابق مذکورہ قافلہ گوادر سے کراچی کی طرف روانہ تھا جب اوڑمارہ کے قريب يہ حملہ ہوا۔ وزير اعظم پاکستان عمران خان نے متاثرين اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ افسوس کا اظہار کيا۔
يہ امر اہم ہے کہ پاکستان ميں سکيورٹی دستوں پر چوبيس گھنٹوں کے دوران ہونے والا يہ دوسرا بڑا حملہ تھا۔ اس سے قبل بدھ کی رات ملک کے شمال مغربی حصے ميں ايک مختلف حملے ميں بھی ايک آفيسر سميت چھ فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ شمالی وزیرستان ميں افغان سرحد کے قريب پہرا دينے والے فوجيوں کو نشانہ بنايا گيا۔ اس حملے کی ذمہ داری تحريک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔ مارچ سے اب تک مختلف حملوں ميں انچاس پاکستانی فوجی ہلاک ہو چکے ہيں۔
سیندک منصوبہ: سونے اور چاندی کے وسیع ذخائر
بلوچستان کے دور افتادہ ضلع چاغی کے سرحدی علاقے سیندک میں گزشتہ تیس سالوں سے سونے چاندی اور کاپر کی مائننگ ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں سونے چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مقام پر تانبے کی دریافت سن 1901 میں ہوئی لیکن یہاں کام کا آغاز 1964 میں شروع کیا گیا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں معدنیات کی باقاعدہ پیداوار کے لیے ’سیندک میٹل لمیٹڈ‘ کی جانب سے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
حکومت پاکستان نے منصوبے پر کام کے لیے پہلا معاہدہ چینی کمپنی ’چائنا میٹالارجیکل کنسٹرکشن کمپنی‘ (ایم سی سی ) کے ساتھ کیا۔ ابتدا میں آمدنی کا 50 فیصد حصہ چینی کمپنی جب کہ 50 فیصد حصہ حکومت پاکستان کو ملنے کا معاہدہ طے کیا گیا تھا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اپنی آمدنی سے دو فیصد بلوچستان کو فراہم کرتی تھی تاہم بعد میں یہ حصہ بڑھا کر 30 فیصد کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ میں ملازمین کی کل تعداد اٹھارہ سو کے قریب ہے جن میں چودہ سو کا تعلق پاکستان جب کہ چار سو ملازمین کا تعلق چین سے ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک منصوبے پر ایم سی سی نے اکتوبر 1991 میں کام شروع کیا۔ سن 1996 میں بعض وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر کام روک دیا گیا اور پروجیکٹ کے تمام ملازمین کو ’گولڈن ہینڈ شیک‘ دے کرفارغ کر دیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سن 2000 میں پاکستان کی مرکزی حکومت نے سیندک منصوبے کو لیز پر دینے کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ چینی کمپنی ایم سی سی نے ٹینڈر جیت کر مئی 2001 سے دس سالہ منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے علاقے سے اب تک لاکھوں ٹن سونا، تانبا ، چاندی اور کاپر نکالا جا چکا ہے۔ نکالے گئے ان معدنیات میں سب سے زیادہ مقدار کاپر کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیندک سے مائننگ کے دوران اب تک دس لاکھ ٹن سے زائد ذخائز نکالے جا چکے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
چینی کمپنی ایم سی سی نے دفتری کام اور پیداواری امور سرانجام دینے کے لیے ’ایم سی سی ریسورس ڈیویلمنٹ کمپنی‘کے نام سے پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کی ہے۔ اس منصوبے کے معاہدے کی معیاد 2021ء تک ختم ہو رہی ہے اور چینی کمپنی علاقے میں مزید مائننگ کی بھی خواہش مند ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں مائننگ کے دوران ڈمپر اسی سے پچانوے ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس زخیرہ کرتے ہیں۔ بعد میں سیمولیٹر سے خام مال ریت بن کر دوسرے سیکشن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پلانٹ میں خام مال مختلف رولرز سے گزر کر پانی اور کیمیکلز کے ذریعے پراسس کیا جاتا ہے اور بعد میں اس میٹیرئیل سے بھٹی میں بلاک تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مغربی کان میں کھدائی مکمل ہوچکی ہے تاہم اس وقت مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جا رہا ہے۔ پروجیکٹ میں مائننگ کا یہ کام چوبیس گھنٹے بغیر کسی وقفے کے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کے بقول خام مال سے ہر کاسٹنگ میں چوالیس سے پچپن کے قریب بلاکس تیار کیے جاتے ہیں جن کا مجموعی وزن سات کلوگرام سے زائد ہوتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں سونے تانبے اور چاندی کے تین بڑے ذخائر کی دریافت ہوئی۔ سیندک کی تہہ میں تانبے کی کل مقدارچار سو بارہ ملین ٹن ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انیس سال کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور یہ معاہدہ سن 2021 میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک پروجیکٹ سے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ منصوبے میں ملازمین کی کم از کم تنخواہ اسی سے سو ڈالر جب کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ پندرہ سو ڈالر کے قریب ہے۔