1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحریک انصاف کی گرفتار خواتین کس حال میں ہیں؟

25 مئی 2023

پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین کی درست تعداد کے بارے میں متضاد اعدادوشمار سامنے آرہے ہیں جبکہ ان کی جماعت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ زیر حراست خواتین کو ناروا سلوک کا سامنا ہے۔

Pakistan I Verhaftung von Imran Khan
تصویر: Asif Hassan/AFP

نو مئی کو سرکاری و فوجی املاک پر حملوں کے الزام میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور پاکستانی سیاست میں نمایاں طور پر ابھرنے والی پی ٹی آئی خواتین کی منفرد کلاس بھی اس کی زد میں ہے۔

پی ٹی آئی کی خواتین شروع سے ہی اپنی جماعت کی احتجاجی ریلیوں اور جلسوں میں صف اول پر رہی ہیںتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نو مئی کے بعد گرفتار ہونے والے پی ٹی آئی کے تمام کارکنوں اور لیڈروں کی کل تعداد دس ہزار سے زیادہ بتاتے ہیں لیکن پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ گرفتار کیے جانے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور لیڈروں کی تعداد ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔

ان میں سے کوئی آٹھ سو کے قریب ایسے افراد ہیں جن کے خلاف مقدمات ملٹری کورٹس میں چلائے جانے کا امکان ہے۔ البتہ جمعرات کے روز جناح ہاؤس حملہ کیس میں جن سولہ لوگوں کے خلاف ملٹری ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی منظوری دی گئی، اس میں کوئی خاتون شامل نہیں ہے۔

گرفتار خواتین کی تعداد کے تعین میں دشورای  

پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنما سینٹر زرقا تیمور سہروردی نے ڈی ڈبلیو سےگفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان بھر سے گرفتار شدہ خواتین کی تعداد کوئی پانچ سو کے قریب ہے۔ انہوں نے کہا،'' ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمیں درست اطلاعات نہیں مل ر ہیں۔ حکومت کچھ بتا نہیں رہی، کچھ خواتین انڈر گراونڈ چلی گئی ہیں۔ کچھ کا اتا پتا نہیں مل رہا اور کچھ گرفتار ہیں لیکن ان سے رابطوں میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ ‘‘

لاہور میں زمان پارک میں قائم ایک خصوصی سیل کے پاس ستر سے زائد خواتین کا ڈیٹا اکٹھا ہو چکا ہے، جن پر مقدمات قائم کرکے انہیں گرفتار کیا گیا  ہے۔ وہاں سے ڈی ڈبلیو کو دستیاب ہونے والی معلومات کے مطابق اب تک اسلام آباد سے چالیس، وسطی پنجاب سے چھ شمالی پنجاب سے دو، مغربی پنجاب سے پانچ، مالا کنڈ (کے پی کے) سے ایک، کراچی سے آٹھ اور حیدر آباد سے بھی آٹھ گرفتار خواتین کا پتہ چلا لیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی نے گرفتار خواتین کی درست تعداد جاننے اور قانونی مدد کے لیے ایک خصوصی سیل قائم کیا ہےتصویر: AKHTAR SOOMRO/REUTERS

گرفتار خواتین کون؟

ڈی ڈبلیو کو پی ٹی آئی  کی طرف سے فراہم کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق پارٹی کی گرفتار شدہ خواتین میں سے اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں جن خواتین پر مقدمات قائم ہیں ان میں شمائلہ، رابعہ اقبال اور مہوش شامل ہیں۔ تھانہ آبپارہ میں درج مقدمات میں گرفتار ہونے والی خواتین میں سمیرا خان، سائرہ خان، دل آرا، فرخندہ اشتیاق، سمیرا علی، زویہ ارشد، سعدیہ فرید، مدیحہ فرید، شازیہ منیر، ڈاکٹڑ ثمن، شاہدہ نیازی، نیلم، نعیم گل، کشور ناہید، مینا خان، شازیہ ، عائشہ اعوان، ملیحہ قاسم، سیدہ عباس، مہوش حسین، بشرہ آصف، شہر بانو ، فرزانہ ریاز، انیبہ طاہر، اور شہلا احسان شامل ہیں۔

کے پی کے صوبے کے علاقے مالا کنڈ سے تعلق رکھنے والی سینٹر فلک ناز کو بھی گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔ وسطی پنجاب سے گرفتار ہونے والی خواتین میں سابق صوبائی وزیر ڈاکٹڑ یاسمین راشد، سابق ممبر قومی اسمبلی مس عالیہ حمزہ، مریم مزاری، ڈاکٹڑ صبوحی، طیبہ گل اور صنم جاوید شامل ہیں۔

شمالی پنجاب سے وردہ خان اور عائشہ علی جبکہ مغربی پنجاب سے رخسانہ منظور ،اور  ایڈوکیٹ منزہ بخاری  شامل ہیں جبکہ تہمینہ ریاض، عنبرین فاطمہ اور نازیہ سردار رہا ہو چکی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنما شیریں مزاری کو عدالت سے رہائی ملنے کا باوجود بار بار گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم وہ رہا تو ہو گئیں لیکن انہوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان کی بیٹی ایمان حاضر مزاری  نے میڈیا کو بتایا تھا کہ عمران خان نے زیر حراست شیریں مزاری کا خیال نہیں کیا۔

تحریک انصاف کی سابقہ مرکزی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاریتصویر: Arif Hudaverdi Yaman/AA/picture alliance

 ایک وٹس ایپ پیغام کے ذریعے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں  ایمان مزاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی والدہ کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور وہ میڈیا سے گفتگو نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ اسی طرح ملیکہ بخاری اورمسرت چیمہ سمیت کئی دیگر خواتین کو بھی عدالت کی طرف سے رہائی کے احکامات کے باوجود گرفتاری کا سامنا ہے۔

عمران خان نے اپنے ایک حالیہ ٹویٹ میں کہا ہے کہ حقیقی آزادی کیلئے جس انداز میں پاکستانی خواتین کھڑی ہوئی ہیں، انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور (انکی یہ ثابت قدمی) ہماری جمہوری تاریخ کا حصہ بنے گی۔ اس کے ساتھ ہمارے اہلکاروں کی بربریت اور ہماری خواتین کو تکلیف پہنچانے، انہیں اذیت دینے اور ان کی تذلیل کرنے کے لیے جس بے شرمی سے انہوں نے (قانون و اخلاق کی) تمام حدود پامال کیں، اسے کبھی فراموش نہ کیا جائے گا۔ سینکڑوں نہایت ابتر حالات میں جیلوں میں بند ہیں۔ یہ (وحشت بھی) کبھی نہ بھُلائی جائے گی۔

حکومتی مؤقف

ادھر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ گرفتار شدہ خواتین  جلاؤگھیراؤ کے مقدمات میں ملوث ہیں اور یہ کہ ان کے خلاف توڑ پھوڑ کے شواہد موجود ہیں۔  وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ کہنا تھا کہ ان خواتین کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے اور متعلقہ عملے کو سختی سے یہ ہدایت کی جا چکی ہے کہ کسی بے گناہ کے خلاف کارروائی نہ کی جائے اور کسی قصور وار کو معاف نہ کیا جائے۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

 کور کمانڈر ہاؤس  پر حملے کے مقدمے میں مطلوب سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ  کی نواسی اور سابق وفاقی وزیر خزانہ سلمان شاہ کی صاحبزادی کو بہت سے سیاسی اور اعلٰی سطحی سفارشوں کے باوجود، جس طریقے سے گرفتار کیا گیا ہے، اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے ساتھ نرمی برتے جانے کا کوئی امکان نہیں۔

گرفتاری کا خوف 

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لاہور کی ایک مقامی یونیورسٹی میں استاد ڈاکٹر نجمہ بخاری (فرضی نام) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ نو مئی کے دن جناح ہاؤس کے باہر فٹ پاس پر کھڑی تھیں اور وہ کور کمانڈر ہاؤس میں داخل نہیں ہوئیں لیکن اب وہ مسلسل اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں انہیں  بھی دھر نہ لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا،  ''مجھے میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ پنجاب حکومت نے نئی گرفتاریوں کے لئے کوئی نئی لسٹ تیار کی ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ اس میں میرا نام ہے یا نہیں ہے۔ ‘‘

 سینٹر زرقا تیمور سہروردی کا کہنا ہے کہ پارٹی گرفتار خواتین کو قانونی مدد فراہم کرنے کے لئے کام کر رہی ہے۔ ہم نے ایک فنڈ بھی قائم کیا ہے جس کے ذریعے غریب کارکن خواتین کی فیملیز کی مدد کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں گرفتار خواتین سے رابطہ کرنے اور ان کے بارے میں درست معلومات حاصل کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ گرفتار خواتین سے ان کے وکلا  اور ان کے خاندانوں کی ملاقات میں کافی مسائل کا سامنا ہے اور انہیں ادویات اور کھانا پہنچانے میں بھی مشکلات حائل ہیں۔

ناروا سلوک کی شکایت

سینٹر زرقا کا مزید کہنا تھاکہ خواتین کے ساتھ دوران حراست کیسا سلوک ہوتا ہے اس کا اندازہ شیریں مزاری اور خدیجہ شاہ (جو کہ پارٹی کی عہدیدار بھی نہیں ہیں) کے ساتھ ہونے والے سلوک سے لگایا جا سکتا ہے۔

سینٹر زرقا تیمور نے کہا کہ سفید کپڑوں میں ملبوس لوگ گھروں میں گرفتاری کے لئے جاتے ہوئے جس طرح دہشت پھیلانے کے لئے توڑ پھوڑ کرتے ہیں وہ بہت پریشان کن ہے۔ ان کے مطابق زیر حراست ماؤں کو بچوں سے اور بچوں کو ماؤں سے ملنے کی اجازت دی جانی چاہییے اور تمام  بے گناہ لوگوں کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہییے۔

قیدیوں کی درست تعداد جاننے کے لیے درخواست

ارمان ویلفئیر فاونڈیشن کی سربراہ آمنہ ملک نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر ایک درخواست میں نو مئی کے بعد گرفتار کیے جانے والے تمام شہریوں اور ان پر درج کیے گئے مقدمات کی تفصیل فراہم کرنے کی استدعا کی ہے۔

سول سوسائٹی نیٹ ورک کے سربراہ عبداللہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق گرفتار شدگان کو ان پر عائد مقدمے کی تفصیلات سے آگاہ کرنا اور انہیں چوبیس گھنٹوں میں عدالت کے سامنے پیش کرنا لازم ہے ۔ ان کے بقول زیر حراست افراد پر جسمانی تشدد کی بھی قانون اجازت نہیں دیتا ۔

بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، عمران خان

07:43

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں