تحریک انصاف کے کتنے مظاہرین ہلاک ہوئے، حقیقت کیا ہے؟
27 نومبر 2024پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لیڈرشپ کا کہنا ہے کہ گزشتہ شب سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے پرامن مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں، جس کی وجہ سے''سینکڑوں افراد زخمی ہیں اور درجنوں اموات‘‘ واقع ہوئی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈا پور نے آج دوپہر کی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ پولیس کے پرتشدد کریک ڈاؤن میں ''سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے اور سینکڑوں کی ہلاکت‘‘ ہوئی۔ انہوں نے کہا، ''جب ہم پر امن طریقے سے جا رہے تھے، تو ہم پر گولیاں کیوں چلائی گئیں؟‘‘
حکومت کا مظاہرین کی ہلاکتوں کے حوالے سے دعویٰ بالکل مختلف ہے اور وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ ''سراسر جھوٹ ہے جبکہ جلوس میں شریک کسی بھی فرد کی ہلاکت نہیں‘‘ ہوئی۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ''مظاہرین میں مسلح لوگ شامل تھے، جن کا تعلق افغانستان‘‘ سے ہے اور وہ گرفتار ہیں۔
کیا پولیس آپریشن میں ہلاکتیں ہوئی ہیں؟
ڈی ڈبلیو نے، جب اس معاملے کی تحقیق کے لیے مختلف ہسپتالوں میں مختلف ذرائع سے بات کی تو کم از کم چھ مظاہرین کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر ہمایوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس حتمی معلومات تو نہیں ہیں لیکن پارٹی کے گروپس میں گردش کرنے والی فہرست کے مطابق ''تقریباً 28 لوگوں کی اموات‘‘ ہوئی ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ صرف اندازے پر مبنی ہلاکتیں ہو سکتی ہیں کیونکہ ابھی تک صحیح معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
'صورت حال آئندہ چند روز میں واضح ہو گی‘
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت دھرنے میں آنے والے ہر شریک افراد کو نہیں جانتی، لہٰذا آئندہ کچھ دنوں میں صورتحال مزید واضح ہو جائے گی، ''جب لوگ اپنے گھر نہیں پہنچیں گے تو ان کے ورثا رپورٹ کریں گے، تب پتا چلے گا کہ کتنے لوگ لاپتہ ہیں، ان میں سے کتنے گرفتار ہیں اور باقی کتنے افراد کی اموات ہوئی ہیں؟‘‘
انہوں نے دھرنے میں مسلح افراد کے موجود ہونے کے حکومتی دعوے کی بھی تردید کی اور کہا، ''کیا دنیا کو نظر نہیں آتا کہ لوگ اپنی گاڑیاں چھوڑ کر کیوں بھاگے ہیں؟ یہ پولیس فائرنگ کی وجہ سے ہے۔‘‘
ڈی چوک پہنچنے والے کارکنان ’آخری بال‘ تک لڑیں، عمران خان
پی ٹی آئی کی ایک اور رہنما ڈاکٹر زرکا تیمور کا کہنا ہے کہ وہ چھ افراد کی ہلاکت کی بات سن رہی ہیں لیکن ابھی یہ تعداد حتمی نہیں ہے، ''پارٹی ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے اور جب معلومات مکمل ہو جائیں گی تو میڈیا سے شیئر کی جائیں گی۔‘‘
ڈی ڈبلیو کے ذرائع کے مطابق، جو مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں، ان میں سے چار کی لاشیں پولی کلینک اور دو افراد کی لاشیں پمز میں لائی گئیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت کا معاملات پر مکمل کنٹرول ہونے کی وجہ سے وہ ہلاک ہونے والے افراد اور زخمی ہونے لوگوں کی مزید تفصیل حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
حکومت نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب تحریک انصاف کے مظاہرین کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا تھا۔ اس دوران تمام علاقے کو سیل کر دیا گیا اور لائٹیں بھی بند کر دی گئیں۔ سکیورٹی فورسز نے پوری قوت استعمال کرتے ہوئے احتجاج کو منتشر کر دیا۔ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہے۔ تاہم حکومت نے ایک ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
انسانی حقوق، قانون اور سکیورٹی امور کے ماہرین حکومت کے مظاہرین کے خلاف کیے گئے اس آپریشن کو ذیادتی اور بنیادی حقوق کی حلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔
ایمان مزاری، جو انسانی حقوق کی ایک وکیل اور پی ٹی آئی کی سابق لیڈر شیریں مزاری کی بیٹی ہیں، نے حکومت اور پی ٹی آئی کی لیڈرشپ دونوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ کہتی ہیں، ''حکومت کا ردعمل مکمل طور پر غیر متوازن اور حد سے زیادہ سخت تھا۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے، جس میں واضح طور پر رینجرز کو ایک مظاہرہ کرنے والے فرد کو کنٹینر سے نیچے پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ غیر مسلح شہریوں پر براہِ راست فائرنگ کی متعدد رپورٹیں موجود ہیں۔ حکومت نے اس معاملے کو، جس انداز میں ڈیل کیا، اس کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''پی ٹی آئی کی قیادت، خاص طور پر علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کا اپنے کارکنوں کو تنہا چھوڑ دینا بھی بہت شرمناک تھا۔ جیسے ہی صورتحال خطرناک ہوئی، دونوں موقع سے فرار ہو گئے۔‘‘
لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی کہتے ہیں، ''حکومت نے جس طرح اس صورتحال کو ڈیل کیا وہ درست نہیں تھا۔ حکومت نے پہلے سے دھرنے کی کوئی جگہ طے نہیں کی اور پھر آخری لمحے میں جگہ کا اعلان کیا۔ کتنے لوگ ہلاک ہوئے، اس کی اصل حقیقت چند دنوں میں سامنے آئے گی، جب کچھ لوگ اپنے گھروں کو نہیں پہنچیں گے۔ حالیہ واقعات سے نہ تو حکومت مضبوط ہوئی ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی۔‘‘
رات بھر کی جھڑپوں سے قبل اتوار کو شروع ہونے والے ان مظاہروں میں نیم فوجی دستوں کے چار اہلکار اور دو مظاہرین سمیت کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔