1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحریک طالبان پاکستان اختلافات کا شکار

7 مارچ 2012

کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں ایک مرتبہ پھر اختلافات شدت اختیار کرچکے ہیں۔ اختلافات کا یہ سلسلہ طالبان کی شوریٰ کی جانب سے نائب امیر مولوی فقیر محمد کو تنظیم سے نکالنے کے اعلان سے شروع ہوا۔

Hakimullah Mehsud Taliban Tehrik e Talibanتصویر: picture-alliance/dpa

مولوی فقیر محمد کے ساتھیوں نے اس اقدام پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے یقیناﹰ تنظیم کمزور ہوگی اور وہ اپنا علیحدہ گروپ بنا نے کا سوچ رہے ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود اور نائب کمانڈر مولوی فقیر کے مابین اُس وقت اختلافات پید اہوئے، جب مولوی فقیر نے حکومت کے ساتھ بات چیت کا عندیہ دیا، جس کے بعد حکومت نے زیر حراست اُن کے 145ساتھیوں کو خیر سگالی کے طور پر رہا کیا۔ اس پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ نے انہیں تحریک سے علیحدہ کرنے کا اعلان کیا اور اس بات کی تصدیق طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شوریٰ بہت جلد نئے ڈپٹی کمانڈر کے نام کا اعلان کرےگی۔

سکیورٹی فورسز کی جانب سے مختلف علاقوں میں آپریشن کی وجہ سے طالبان کافی حد تک کمزور ہوچکے ہیںتصویر: picture alliance/dpa

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے مختلف علاقوں میں آپریشن کی وجہ سے طالبان کافی حد تک کمزور ہوچکے ہیں اور اب حکومت کو ان کے خلاف مؤثر کارروائی کرنی چاہیے۔ تاہم وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر صالح محمد کی رائے اس سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے، ”کوئی بھی مسئلہ آپریشن سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک جرگے ہوا کرتے تھے اور مذاکرات جاری تھے تو حالات اس قدر خراب نہیں ہوئے لیکن پاکستان نے امریکہ کی ایماء پر مذاکرات اور بات چیت کا سلسلہ ختم کردیا، جس نے حالات کو تباہی کی جانب گامزن کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرگوں اور مذاکرات کے بغیر یہ مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔ آپریشن اور جنگ سے کبھی بھی مسائل حل نہیں ہوئے۔ آپ نے آخر میں مذاکرات کی میز پر آکر بیٹھنا ہوگا۔“

دوسری جانب پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان میں پناہ لینے والی افغان جنگجو حقانی نیٹ ورک کے سراج الدین حقانی نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں کارروائیوں کی بجائے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فورسز کے خلاف کارروائیوں پر توجہ مرکوز کریں۔ ان کے اس مؤقف کو پاکستان کے کئی جنگجو گروپوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ چند روز قبل پاکستان نے بھی پہلی مرتبہ طالبان سے کرزئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کی اپیل کی تھی۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی فضاء اس دن سے ہموار ہونا شروع ہوئی، جب امریکہ اور اتحادیوں نے طالبان کو قطر میں رابطہ آفس کھولنے کی اجازت دی۔

دوسری جانب پاکستانی طالبان کے مختلف گروپوں کی طرف سے آج بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز ، حکومتی اداروں اور سیاسی لوگوں کے اجتماعات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان مسلح عسکریت پسندوں کےگروپوں نے ایک مرتبہ پھر پولیس اور اسکولوں کو نشانہ بنا نا شروع کیا ہے۔ سال رواں کے 67 دنوں کے دوران نو خود کش حملوں اور 88 بم دھماکوں میں پولیس اہلکاروں سمیت183افراد ہلاک جبکہ361 سے زیادہ زخمی ہوئے، جبکہ بارہ اسکولوں کو بھی دھماکوں سے اُڑایا گیا۔

رپورٹ: فرید اللہ خان / پشاور

ادارت: امتیاز احمد

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں