تحریک عدم اعتماد: کیا پاکستان معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے؟
28 مارچ 2022پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف جاری تحریک عدم اعتماد کی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ ملک میں اعلی حکومتی شخصیات اپنا کام کاج چھوڑ کر سیاسی بحران سے نمٹنے کے لئے سرگرداں ہیں۔ سرکاری دفتروں میں بیوروکریسی'' دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ وفاقی کابینہ کا اجلاس کئی ہفتوں سے مسلسل ملتوی ہو رہا ہے اور فوری نوعیت کے کئی اہم اقتصادی فیصلے نہیں ہو پا رہے ہیں۔
عدم استحکام کی صورتحال
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اکمل حسین نے بتایا کہ اس وقت ملک میں جو عدم استحکام کی سی صورتحال ہے اس سے ملکی معیشت پر فوری، وسط مدتی اور طویل مدتی اثرات مرتب ہوںے کا امکان ہے۔ ان کے مطابق اقتصادی گروتھ کی رفتار سست ہونے اور مہنگائی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ آگے چل کر غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہونے کا امکان ہے،''طویل المیعاد اثرات یہ ہوں گے کہ معیشت کے لئے اصلاحات اور اسٹرکچرل تبدیلیوں کی جو اشد ضرورت ہے وہ اب اور مشکل ہو جائیں گی۔‘‘
پاکستانی جمہوریت: ووٹ کو عزت مل سکی اور نہ ووٹرز کو
سیاسی بے یقینی کا خوف
انگریزی اخبار دی نیوز سے وابستہ اقتصادی تجزیہ نگار منصور احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اپوزیشن سے ڈری ہوئی عمران حکومت نے وسائل نہ ہونے کے باوجود تیل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کر دی ہے۔ آگے الیکشن آ رہے ہیں، ووٹوں کے حصول کے لئے معاشی نظم و ضبط اور زمینی حقائق کے برخلاف حکومتیں عوام کو ریلیف دیں گی جس سے آنے والی حکومت کے لئے ان اقدامات کو واپس کرنا آسان نہ ہوگا۔
ملک میں جاری عدم استحکام اورسیاسی بے یقینی کے پیش نظر سرمایہ کاروں نے بھی فی الحال نئی سرمایہ کاری کے فیصلے معطل کر دئیے ہیں۔ ایوان صنعت و تجارت لاہور کے سابق سربراہ پرویز حنیف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کاروباری برادری کو یہ خوف لاحق ہے کہ آنے والی حکومت کہیں موجودہ حکومت کی پالیسیاں نہ بدل دے،''ہم اپنے لانگ ٹرم منصوبوں کے فیصلے بے یقینی کی فضا میں نہیں کر سکتے۔‘‘
’موجودہ اقتصادی پالیسیاں تبدیل مت کی جائیں‘
پرویز حنیف نے بتایا کہ اس وقت یورپی خریدار موسم سرما کے آرڈرز فائنل کر رہے ہیں لیکن ہمارے ایکسپورٹرز کو یہ پتہ نہیں ہے کہ ان کو دی جانے والی مراعات چند ہفتوں بعد بھی جاری رہیں گی یا نہیں،''پاکستان میں اس بحران کو جلد سے جلد حل ہونا چاہیئے اور اپوزیشن اتحاد کو فوری طور پر یہ اعلان کرنا چاہیئے کہ وہ موجودہ اقتصادی پالیسیاں نہیں بدلیں گے۔‘‘
پاکستان کے ایک اور معاشی ماہر خالد محمود رسول کہتے ہیں کہ پاکستان کے کئی معاشی اعشارئیے اقتصادی حالات کی مشکلات کو بیان کر رہے ہیں، ''ڈالر 182 روپے سے بھی اوپر چلا گیا ہے، سٹاک ایکسچینج میں بھی ابتری پیدا ہے، فوڈ اور نان فوڈ انفلیشن میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، اگر نئی حکومت آنے والے دنوں میں ٹیکسوں میں اضافے پر مجبور ہوئی تو اس سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں، سکولوں کی فیسوں اور یوٹیلٹی بلوں کے نرخوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی بہت مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔‘‘
نون لیگ اور حکومتی موقف
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون کے سینٹر رانا مقبول احمد نے بتایا کہ یہ درست نہیں ہے کہ صرف چند دنوں کی وجہ سے معیشت متاثر ہو رہی ہے، ان کی رائے میں یہ عمران حکومت کی نا اہلی اور غلط پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے پہلے ہی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے۔
کیا تحریک عدم اعتماد کا اجلاس ملتوی ہونا عمران خان کے حق میں ہے؟
دوسری طرف وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ درست نہیں ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے حکومتی فیصلہ سازی کی رفتار کم ہو گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ انہی دنوں میں حکومت نے ایک غیر ملکی کمپنی کے ساتھ ریکوڈک کا معاہدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کھاد پر سبسڈی کے فیصلے کی منظوری دی گئی ہے۔‘‘