1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'رل تے گئے آں پر چس بڑی آئی ہے'

21 مارچ 2022

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کی حمایت اور مخالفت میں شیئر کی جانے والی طنز و مزاح پر مبنی ان پوسٹوں میں محبت اور نفرت کے سارے رنگ نمایاں ہیں۔

 Imran Khan
تصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

ایک ایسے وقت جب تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے عمران خان کی حکومت کو جان کے لالے پڑے ہیں، سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی مزاحیہ میمز، تصویروں، ویڈیوز اور ٹیکسٹ پیغامات نے اس سنجیدہ مئسلے کو عوامی تفریح کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر جہاں کچھ لوگ اپنے رد عمل کے اظہار میں ''سرخ لکیر‘‘ کراس کرتے نظر آ رہے ہیں وہیں بعض ماہرین کے بقول یہ غیر سینسر شدہ عوامی ردعمل ہے جس سے رائے عامہ کے رجحانات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ عمران کی حکومت کے بعض حامیوں کی لفظی گولہ باری کا رخ ملک کے طاقت ور حلقوں کی طرف  بھی ہوتا جا رہا ہے۔ 

ایک صارف نے لکھا کہ لوٹے سیاسی پارٹیوں میں موجود سرکار کے نمائندے ہیں اور یہ پاکستان کی سیاست کی گاڑی میں اسٹیئرنگ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ سرکار انہی کے ذریعے پاکستان کی سیاست کا رخ موڑتی ہے۔

ایک صارف نے سوال اٹھایا کہ سندھ ہاوس میں تو پیسوں کی بوریاں تقسیم ہو رہی ہیں لیکن کیا جہانگیر ترین کے جہاز میں جائے نماز، تسبیحیاں اور مسواکیں تقسیم ہوتی رہیں تھیں۔

ایک اور پوسٹ میں پوچھا گیا کہ ''جب سینیٹ کے الیکشن میں 34 ارکان والی پارٹی نے 65 ارکان والی اپوزیشن کو ہرایا تھا تب آپ کا ضمیر کیوں غیر مطمئن نہیں ہوا؟‘‘

مبینہ طور پر پارٹی چھوڑنے والے پی ٹی آئی کے تینتیس ارکان اسمبلی کے پس منظر میں ایک صارف نے لکھا کہ نئے پاکستان سے پہلا طیارہ 33 مسافروں کو لے کر پرانے پاکستان میں لینڈ کر گیا ہے۔

ایک صارف نے وفاداری بدلنے والے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے نام اور تصویریں ایک صفحے پر لگا کر ای کامرس کے سے اندزاز میں ان تصویروں کے اوپر لکھا "سولڈ آؤٹ" یعنی فروخت ہو چکے ہیں۔

ایک اور صارف نے اپنی پوسٹ میں رائے دی کہ جب آپ اقتدار کے لالچ میں اپنے نظریاتی کارکنوں کو چھوڑ کر لوٹوں پر انحصار کریں گے تو اس کا انجام یہی ہو گا۔ کیونکہ لوٹے لوٹ جاتے ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ یہ بھی قیامت کی نشانی ہی لگتی ہے کہ بار بار پارٹیاں بدلنے والے شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، شیخ رشید اور پرویز خٹک جیسے لوگ دوسروں کو لوٹا کہہ رہے ہیں۔

ایک وڈیو میں ایک صاحب ترنم کے ساتھ پی ٹی آئی کے ایک ترانے کی پیروڈی اس طرح گنگناتے دکھائی دے رہے ہیں کہ

کب جائے گا عمران،

چھوٹے گی جان ۔۔۔۔۔

بچے گا میرا پاکستان۔

تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

دوسری طرف عمران خان کے ایک حامی نے لکھا، ''جو بیماری کی ایکٹنگ کرکے لندن چلا گیا وہ شیر ہے اور جو تن تنہا 11 پارٹیوں کا مقابلہ کر رہا ہے وہ گھبرایا ہوا ہے۔‘‘ یہ اچھا مذاق ہے۔ پاکستان کی ایک طاقتور شخصیت کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کی تصویر کے ساتھ ایک جگہ لکھا ہوا ہے کہ 'مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔'

کئی پوسٹوں میں پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایک میم میں بہت سادہ سی شلوار قمیض میں ملبوس وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کسی سے بات کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ "سنا ہے کہ عالمی طاقتیں مجھے ہٹانے کے لئے اکٹھی ہو رہی ہیں۔"

ایک اور پوسٹ کے مطابق اپوزیشن ارکان کی طرف سے وزیر اعلی پنجاب سے جب یہ کہا گیا کہ اگر وہ پوری اے بی سی سنا دیں تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ واپس لے لیا جائے گا۔ اس پر عثمان بزدارنے بڑی معصومیت سے پوچھا کہ ''اے بی سی نکی یا وڈی‘‘ یعنی کیا اے بی سی  کیپٹل حروف والی سنانی ہے یا چھوٹے حروف والی،

کچھ سوشل میڈیا صارفین نے پاکستان مسلم لیگ قاف اور ان کے لیڈروں کو بھی نہیں بخشا۔ ایک پوسٹ میں ایک صارف نے لکھا کہ پاکستان مسلم لیگ قاف کے تمام اراکین کو جمع کر لیا جائے تو ان کی تواضح کے لیے منگوائی گئی کوک کی ڈیڈھ لٹر کی ایک بوتل میں سے سب کو ایک ایک گلاس دے دیا جائے، تو بھی ڈیڈھ گلاس بچ جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود معلوم نہیں کہ عدم اعتماد کے حوالے سے ان کی کئی ہفتوں سے جاری مشاورت کیوں ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔

 ایک دوسری پوسٹ میں ایک صارف نے لکھا کہ چوہدری برادران حکومت کی تبدیلی کی کوششوں میں ساتھ دینے کے لئے  ہونے والے مذاکرات میں اتنے سخت گیر مذاکرات کار ہیں کہ اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں وہ جنرل اسمبلی میں اپنے لیے مستقل نشست کا مطالبہ ہی نہ پیش کردیں۔

یاد رہے کہ ماضی میں عمران خان چوہدری  پرویز الہی اور ایم کیو ایم کو سخت الفاظ کے ساتھ ہدف تنقید بناتے رہے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اب عمران خان ان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔  اس پس منظر میں علی سلمان نامی ایک صارف کا موقف یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ چوہدریوں کو قاتل کہیں یا پھر رکھ رکھاو والے لوگ قرار دیں ۔ اسی طرح انہیں اس بات کی بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ ایم کیو ایم والوں کو بھتہ خور کہیں یا نفیس لوگ۔ ان کے بقول اب پی ٹی آئی کارکنوں کی حالت اس گیت جیسی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ  'رل تے گئی آن پر چس بڑی آئی اے'

’خان صاحب اجازت ہو تو اب گھبرا لیں؟‘

01:41

This browser does not support the video element.

ایک پوسٹ پر تحریر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اقتدار کا کوئی لالچ نہیں وہ تو چوہدریوں کے گھر رمضان کا کیلنڈر دینے گئے تھے۔ ایک اور پوسٹ میں دنیا کے خطرناک ہتھیاروں میں بیوی کے آنسو اور پڑوسن کی مسکراہٹ کے بعد چوہدریوں کی مشاورت کو شامل کیا گیا ہے۔

ایک دل جلے نے موجودہ حالات میں اپنے جذبات کے اظہار کے لئے معراج فیض آبادی کے ان اشعار کا سہارا لیا۔

جو تھے سیاسی گھرانے والے، سب ایک نکلے

بجھانے والے، جلانے والے، سب ایک نکلے

حرام کے رزق میں کوئی امتیاز کیسا

کہ کھانے والے، کھلانے والے، سب ایک نکلے

ہمارے ماضی کی اک عمارت یہ کہہ رہی ہے

بچانے والے، گِرانے والے، سب ایک نکلے

 ایک ویڈیو میں ایک شخص ریڑھی پر چند بندے بٹھائے بازار سے گزرتے ہوئے ''ایم این اے لے لو، ایم این اے لے لو‘‘ جیسی آوازیں لگاتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک گاہک کے استفسار پر ریڑھی والا بتاتا ہے کہ آج کل پاکستان میں ایم این ایز کی بڑی ڈیمانڈ ہے۔ جو بھی انہیں خریدے گا حکومت اسی کی ہو گی۔

تحریک عدم اعتماد کے پس منظر میں بہت سے لوگ حبیب جالب کے ان اشعار کو شیئر کر رہے ہیں۔

پہلے پہلے غَریب بِکتے تھے

 اب تو عِزت مآب بِکتے ہیں

شیخ، واعظ، وزیر اور شاعر

سب یہاں پر جَناب بِکتے ہیں

 دَور تھا اِنقلاب آتے تھے

 آج کل انقلاب بِکتے ہیں

 ایک من چلے نے لکھا کہ جیسے ہی فواد چوہدری نے یہ اعلان کیا کہ آصف زرداری پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی میں بیس بیس کروڑ بانٹ رہا ہے تو یہ سنتے ہی پی ٹی آئی کے بچے کچھے ممبران بھی سندھ ہاوس پہنچ گئے۔

ایک پوسٹ میں پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو کی اردو زبان کی لغزشوں  کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کی ایک ممکنہ تقریر میں سے علامہ اقبال کے ایک شعر کو اس طرح ادا ہوتے ہوئے بتایا گیا۔

دشت تو دشت تھے صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں گھوڑا دیۓ دوڑے ہم نے۔

ادارہ علوم ابلاغیات جامعہ پنجاب کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نوشینہ سلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس طرح کے ابلاغ کو کسی تھیوری میں بند کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان کے بقول بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر شئیر کیا جانے والا کافی سارا مواد مناسب نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں محتاط طرزعمل اپنانے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر نوشینہ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا کے قوانین موجود ہیں۔ ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر بلا جواز کسی کی پگڑیاں اچھالنے اور فیک نیوز پھیلانے کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

عمران خان کی زندگی پرمبنی دستاویزی فلم

05:11

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں