1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحریک لبیک کا احتجاج: بلیک میلنگ اور ریاستی کمزوری کب تک

عبدالستار، اسلام آباد
28 اکتوبر 2021

حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان مذاکرات کی خبروں نے پاکستان کے کئی حلقوں میں اس بحث کو ہوا دے دی ہے کہ آخر حکومت اس طرح کی تنظیموں سے کیوں بلیک میل ہوتی ہے اور یہ تنظیمیں کب تک بلیک میل کرتی رہیں گی۔

Pakistan Mehrere Tote bei Protesten von verbotener Islamistenpartei
تصویر: Arif Ali/AFP

کچھ ناقدین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کو کوئی رعایت دی، تو مستقبل میں یہ حکومت کو مزید بلیک میل کرے گی اور ایسی مذہبی تنظیموں کی حکومت کے اس عمل سے حوصلہ افزائی ہوگی جو مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت اور کالعدم تنظیم کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور پاکستانی میڈیا کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت ٹی ایل پی کی بیشترشرائط کو مشروط طور پر ماننے کے لیے راضی ہے تاہم فرانس کے سفیر کی بے دخلی کے حوالے سے حکومت کو سخت تحفظات ہیں۔

حکومتوں کی کمزوری

پاکستان میں کئی ناقدین کا خیال ہے کہ سیاسی حکومتیں دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں سے ڈرتی ہیں اور وہ ان کو چیلنج کرنا نہیں چاہتی کیونکہ اس سے ان کا ووٹ بینک متاثر ہو سکتا ہے۔

یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ماضی میں نون لیگ کی حکومت سپاہ صحابہ سمیت کئی مذہبی تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کے حوالے سے خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بھی مذہبی عناصر کو خوش رکھنا چاہتی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کئی مرتبہ پیپلزپارٹی کا جے یو آئی ایف اور دوسری مذہبی سیاسی جماعتوں سے کسی نہ کسی صورت میں اتحاد رہا۔ جی یو آئی اب ن لیگ کی قریبی اتحادی ہے۔ 

دفاعی مبصر جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ یہ حکومتوں کی کمزوری ہے کہ اس طرح کی تنظیمیں طاقت پکڑتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "سیاسی جماعت اپنے ووٹ بینک کی وجہ سے اس بات سے ڈرتی ہیں کہ اس طرح کی تنظیموں کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی تنظیمیں تمام حکومتوں کو بلیک میل کرتی ہیں۔ پاکستان میں نظام مصطفی، ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے نام پر مذہبی تنظیمیں سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کرتی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آج سیاسی جماعتیں اس بات پر خوش ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے لیکن ان کو یہ احساس نہیں ہے کہ کل یہی تنظیم دوسری سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کے لیے بھی مسائل کھڑے کر سکتی ہے جیسا کہ ماضی میں اس نے نون لیگ کی حکومت کے لیے مسائل کھڑے کئے تھے۔‘‘

سیاسی جماعتوں کا اتحاد

جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اتحاد مظاہرہ کرنا پڑے گا، "سیاسی جماعتوں کو اس بات پر اتفاق کرنا چاہیے کہ مذہب اور فرقے کے نام پر سیاست کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ وہ یہ قانون بنا لیں کہ جو بھی شخصیات یا تنظیمیں مذہب یا فرقے کے نام پر سیاست کریں، ان پر پابندی لگائی جائے۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو آج تحریک لبیک پاکستان تحریک انصاف کے لیے درد سر بنی ہوئی، کل دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے یہ ہو گا۔‘‘

پیشگی تیاریاں

جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ حکومت کو تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے سے پہلے ہی پیشگی تیاریاں کرنی چاہیے تھیں، "ماضی میں بھی ایسا ہوا تھا کہ جب یہ کالعدم تنظیم مظاہرہ کرنے کا پروگرام بنا رہی تھی، تو خادم حسین رضوی اور دوسرے رہنماؤں کو پہلے سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ایک اکتوبر سے انہوں نے اس بات کے اشارے دینے شروع کر دیے تھے کہ کوئی دھرنا کریں گے اور حکومت کے پاس یقینا حساس اداروں کی طرف سے رپورٹ گئی ہو گی۔ حکومت کو وقت پر عمل کرنا چاہیے تھا اور ان کو مجمع بننے سے پہلے ہی گرفتار کر لینا چاہیے تھا۔ اب اگر حکومت ان کی شرائط مان کر سعد رضوی کو رہا کرتی ہے تو اس سے کمزوری کا تاثر جائے گا۔ تاہم اب بھی حکومت کے پاس یہ آپشن ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرکے ان لوگوں کے خلاف مقدمہ چلائے اور جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘‘

اسٹیبلشمنٹ پالیسی بدلے

جنرل امجد شعیب کی رائے کے برعکس کچھ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ مسئلہ سیاسی جماعتوں یا سیاسی حکومتوں کے ساتھ نہیں بلکہ مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کے حوالے سے ہے، جو ہمیشہ دائیں بازو کی مذہبی قوتوں کی حمایت کرتی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے وابستہ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ جب تک ریاست اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گی، اس طرح کی تنظیمیں ریاست کو بلیک میل کرتی رہیں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تحریک نظام مصطفی سے لے کر تحریک نفاذ شریعت محمدی تک، سپاہ صحابہ پاکستان سے لے کر تحریک لبیک پاکستان تک تمام مذہبی عناصر کے پیچھے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ رہا ہے اور بنیادی طور پر اس کے پیچھے وہ جہادی فلسفہ رہا ہے جس کے تحت ملک میں مذہبی رجعت پسند قوتوں کو دوام بخش کر یہاں پر سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب ریاست کو گھٹنے ٹیکنے نہیں چاہیے بلکہ قانون کو حرکت میں آنا چاہیے، "ریاست کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اگر کوئی قانون ہاتھ میں لے گا تو اس کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ریاست ہمیشہ دائیں بازو کی رجعت پسند اور مذہبی قوتوں کیلئے نرم پالیسی لے کر آتی ہے۔‘‘

مذہبی تنظیمیں اور ان کی تحریکیں

پاکستان کی تخلیق میں سیکولر قوتوں کا بہت ہاتھ تھا لیکن 1949 میں قرارداد مقاصد پاس ہوئی تو اس کے بعد سے مذہبی رجعت پسندوں نے ہلکے ہلکے اپنے لیے سیاسی جگہ بنائی۔

ناقدین کا خیال ہے کیونکہ مذہبی تنظیموں نے پاکستان کی تخلیق کی مخالفت کی تھی اس لیے پاکستان بننے کے بعد ان کی سیاسی جگہ کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن پچاس کی دہائی میں احمدی مخالف تحریک میں مذہبی عناصر بہت متحرک ہوئے، جو بالآخر کچھ ناقدین کے مطابق ملک میں پہلے مارشل لاء کا موجب بنا۔

انیس سو ستر کی دہائی میں مذہبی قوتوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کے نام سے تحریک چلائی۔ اسی کی دہائی میں جنرل ضیاء کی آمریت نے مذہبی قوتوں کی خوب سرپرستی کی اور ملک کے کئی حصوں میں مذہبی عناصر نے افراتفری پھیلانے کی کوشش کی۔

نوے کی دہائی میں مولانا صوفی محمد نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کا نام لیکر مالاکنڈ میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی اور ریاستی رٹ کو چیلنج کیا۔ صوفی محمد کے کچھ پیروکاروں نے بعد میں تحریک طالبان پاکستان میں بہت سرگرم کردار ادا کیا۔

جنرل مشرف کے دور میں لال مسجد سے وابستہ مذہبی رہنماؤں نے ریاست کے لیے مشکلات پیدا کیں اور گزشتہ کچھ برسوں سے تحریک لبیک پاکستان حکومت اور ریاست کو وقتاً فوقتاً چیلنج دیتی رہی ہے۔

پاکستان میں مظاہروں پر کریک ڈاؤن، سوشل میڈیا تک رسائی معطل

05:58

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں