تحفظ ماحول کے ليے سعودی ہدف: سن 2060 تک ’کاربن نيوٹرل‘
23 اکتوبر 2021
آئندہ ماہ اسکاٹ لينڈ ميں ہونے والی COP26 گلوبل کانفرنس سے قبل کئی ممالک تحفظ ماحول کے ليے اہداف کا اعلان کر رہے ہيں۔ سعودی عرب کی جانب سے ہفتے کو وسيع تر اقدامات اور اہداف کا اعلان کيا گيا ہے۔
اشتہار
سعودی عرب نے تحفظ ماحول کے ليے مشکل اہداف اور وسيع تر اقدامات کا اعلان کيا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے ہفتے کو اعلان کيا کہ سن 2060 تک ان کا ملک مکمل طور پر کاربن نيوٹرل ہو جائے گا۔
'کاربن نيوٹرل‘ يا 'زيرو نيٹ اميشنز‘ کا مطلب کيا ہے؟
'کاربن نيوٹرل‘ يا 'زيرو نيٹ اميشنز‘ کا مطلب ہے کہ صنعتی سرگرميوں اور ديگر عوامل سے ماحول ميں خارج ہونے والی سبز مکانی گيسوں کے اخراج اور تحفظ ماحول سے متعلق اقدامات ميں توازن لايا جائے۔ اگر تحفظ ماحول سے متعلق اقدامات سے ضرر رساں گيسوں کے اخراج سے ہونے والے نقصانات کی نفی ہو گی تو 'کاربن نيوٹرل‘ کا ہدف حاصل ہو سکے گا اور اس کے نتيجے ميں زمين کے درجہ حرارت کو مستحکم رکھا جانا ممکن ہو سکے گا۔
مشکل اہداف کا اعلان
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بقول سن 2030 سے کاربن کے اخراج ميں ہر سال 278 ٹن کی کمی لائی جائے گی۔ محمد بن سلمان نے بتايا کہ 'سعودی گرين انيشی ايٹوو‘ (SGI) کے پہلے مرحلے ميں ساڑھے چار لاکھ درخت لگائے جائيں گے جبکہ اس مہم کے تحت آئندہ دو دہائيوں کے دوران ملک بھر ميں دس بلين درخت لگائے جانے ہيں۔ ايس جی آئی کی مد ميں سات سو بلين ريال کی سرمايہ کاری کی جائے گی۔
رياض حکومت نے سن 2030 تک ميتھين گيس کے اخراج ميں بھی تيس فيصد تک کمی متعارف کرانے کے ہدف کا اعلان کيا ہے۔
موسمياتی تبديليوں سے خواتين کيسے متاثر ہو رہی ہيں؟
ايک تازہ مطالعے ميں يہ بات سامنے آئی ہے کہ قدرتی آفات کی تواتر سے آمد اور دن بدن محدود ہوتے ہوئے وسائل کے نتيجے ميں گھريلو تشدد، کم عمری ميں شاديوں اور جنسی طور پر ہرانساں کيے جانے کے واقعات ميں اضافہ نوٹ کيا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
بنجر علاقوں ميں اضافہ، جنسی زيادتی کے خطرے کا سبب
’انٹرنيشنل يونين فار کنزرويشن آف نيچر‘ (IUCN) کے ايک تازہ مطالعے کے مطابق دنيا بھر ميں کئی مقامات پر خشک سالی بڑھ رہی ہے اور درختوں والے علاقے گھٹتے جا رہے ہيں۔ نتيجتاً عورتوں کو لکڑی جمع کرنے کے ليے پہلے کے مقابلے ميں زيادہ مسافت کرنی پڑ رہی ہے۔ يہ صورتحال ان کے ساتھ جنسی زيادتی کا خطرہ بڑھنے کا سبب بنی ہے، بالخصوص دنيا کے جنوبی حصوں ميں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/R- Shukla
قدرتی آفات کے نتيجے ميں کم عمری ميں شادياں
ترقی پذير ملکوں ميں ايک ہزار سے زائد کيسز کے جائزے سے يہ پتہ چلا ہے کہ سيلاب اور خشک سالی جيسی قدرتی آفات والے ادوار ميں لڑکيوں کی کم عمری ميں شاديوں کے رحجان ميں اضافہ ہوا ہے۔ جب کھانے کی پينے کی اشياء کی قلت ہوتی ہے، تو اہل خانہ لڑکوں کو بياہنے کو ترجيح ديتے ہيں، عموماً گائے، بيل يا کسی اور شے کے بدلے ہيں۔ يہ صورتحال عموماً ديہی علاقوں ميں نمودار ہوتی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Joyce
زراعت سے منسلک خواتين بھی متاثرين ميں شامل
دنيا کے جن حصوں ميں خواتين زراعت سنبھال رہی ہيں، وہاں قدرتی آفات کی صورت ميں متعلقہ خواتين کی معاشی و سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ فصل کے مکمل يا جزوی طور پر تباہ ہو جانے کی صورت ميں تشدد کا عنصر ديکھنے ميں آيا ہے، جن کا شکار عورتيں بنتی ہيں اور عموماً اپنے ہی اہل خانہ کے ہاتھوں۔ ايسی صورتحال سے بچنے کے ليے عورتوں کے آمدنی کے ذرائع ميں تنوع لازمی ہے۔
تصویر: Sanne Derks
بدلتی ہوئی دنيا اور اکيلی عورت
موسمياتی تبديليوں کے سبب حالات تنگ ہوتے جا رہے ہيں۔ کئی خاندانوں کے ليے اس کا مطلب يہ ہے کہ مردوں کو روزگار کی تلاش کے ليے اپنے گھروں سے دور جانا پڑتا ہے۔ نتيجتاً، بدلتی ہوئی دنيا ميں عورت کو تنہا متعدد معاملات کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ريت رواج اور رسميں بھی مشکلات کا سبب
ريت رواج اور قديمی رسميں بھی عورتوں کو نازک بنانے کا باعث بنی ہيں۔ مثال کے طور پر کئی معاشروں ميں بچوں اور عمر رسيدہ افراد کی ديکھ بھال کی مرکزی ذمہ داری عورت کے سپرد ہوتی ہے۔ يہ حقيقت انہيں گھروں سے باندھ ديتی ہے اور پھر سيلاب يا طوفانوں کی صورت ميں انہيں زيادہ خطرو لاحق ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Dey
بنيادی ڈھانچے کا فقدان
بنيادی ڈھانچے کی عدم موجودگی اور ہنگامی حالات ميں عورتوں کے ليے خصوصی انتظامات کا فقدان بھی عورتوں کے ليے اضافی خطرات کا سبب بنتے ہيں۔ ہنگامی مراکز ميں جب عورتيں بيت الخلاء وغيرہ کا استعمال کرتی ہيں، تو انہيں وہ مردوں سے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Ali
جنسی حملوں کا خطرہ
تحفظ ماحول کے ليے متحرک خواتين کو اضافی خطرہ لاحق ہوتا ہے بالخصوص جنوبی امريکا ميں۔ وہاں کئی ملکوں ميں عورتوں نے نئے ڈيمز وغيرہ کی تعمير کی مخالفت ميں احتجاج کيا اس کے جواب میں ان کے خلاف جنسی حملوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ مطالعے کے مطابق مرد عورتوں کی بات دبانے کے ليے جنسی ہراسانی کا راستہ اختيار کر سکتے ہيں۔
تصویر: Getty Images
7 تصاویر1 | 7
COP26 گلوبل کانفرنس
خام تيل کے سب سے بڑے ايکسپورٹر سعودی عرب کی جانب سے تحفظ ماحول کے ان اہداف کا اعلان آئندہ ماہ اسکاٹ لينڈ ميں ہونے والی COP26 گلوبل کانفرنس سے قبل کيا گيا ہے۔ يہ کانفرنس اکتيس اکتوبر سے شروع ہو گی اور بارہ نومبر تک جاری رہے گی۔ اقوام عالم کی کوشش ہے کہ اس کانفرنس ميں زيادہ سے زيادہ ممالک کو سن 2050 تک 'کاربن نيوٹرل‘ کے ہدف تک پہنچنے کا پابند کيا جائے۔ اقوام متحدہ نے اعلان کيا کہ اب تک ايک سو تيس ممالک يا تو يہ ہدف مقرر کرنے کا فيصلہ کر چکے ہيں يا اس بارے ميں سنجيدگی سے غور کر رہے ہيں۔
گلاسگو ميں ہونے والی اس کانفرنس کو موسمياتی تبديليوں کے انسداد اور تحفظ ماحول کے ليے کافی اہم قرار ديا جا رہا ہے۔
سبز مکانی گيسوں کے اخراج ميں امريکا کے بعد بھارت اور چين کا نمبر آتا ہے۔ دونوں ہی ممالک سن 2050 تک 'کاربن نيوٹرل‘ کے ہدف تک پہنچنے کا ہدف طے کرنے کے معاملے ميں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہيں۔
شمسی توانائی کا حصول: کون سا ملک آگے، کون پيچھے؟
حاليہ قدرتی آفات نے تحفظ ماحول کی اہميت کو ايک مرتبہ پھر اجاگر کر ديا ہے اور روز مرہ کی زندگی کے قريب تمام پہلوؤں ميں ماحول دوست طرز عمل اختيار کرنے کی بحث زور پکڑتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW
شمسی توانائی کا حصول، چين سب سے آگے
چين شمسی توانائی کے حصول ميں سرفہرست ملک ہے۔ وہاں سن 2020 ميں مجموعی طور پر 261.1 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔ ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی کی پيمائش کا طريقہ ہے۔ فی ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی کے ايک يونٹ کو کہا جاتا ہے، جس ميں فی گھنٹہ ايک کھرب واٹ بجلی پيدا ہوتی ہے۔
تصویر: Str/AFP/Getty Images
امريکا اور جاپان بھی سرفہرست ممالک
امريکا بھی اس فہرست ميں نماياں ہے۔ وہاں 2020ء ميں مجموعی طور پر 132.63 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔ گزشتہ برس جاپان ميں سورج کی روشنی سے 84.45 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔
تصویر: Getty Images/M. Tama
بھارت اور جرمنی بھی پيش پيش
بھارت اور جرمنی بھی شمسی توانائی کے حصول ميں پيش پيش ہيں۔ بھارت ميں سالانہ 58.73 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوتی ہے۔ جرمنی ميں سن 2020 کے دوران مجموعی طور پر 51 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا کی گئی۔ جوہری قوت يا کوئلے کی نسبت سورج کی روشنی سے توانائی کے حصول کو ماحول دوست قرار ديا جاتا ہے۔
اٹلی اور اسپین یورپی صف بندی ميں تيسری پوزيشن پر ہيں۔ ان ملکوں ميں سالانہ بيس سے چاليس ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوتی ہے۔ پچھلے سال اٹلی اور اسپين ميں بالترتيب 26.5 اور 20.76 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/Global Warming Images/A. Cooper
شمسی توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ
سالانہ دس سے بيس ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا کرنے والے ملکوں کی فہرست ميں جنوبی کوريا، آسٹريليا، ويت نام، ترکی، فرانس، برطانيہ اور ميکسيکو شامل ہيں۔ ان ملکوں کے بعد برازيل اور ہالينڈ کا نمبر آتا ہے، جہاں پچھلے سال بالترتيب 7.59 اور 7.91 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔
تصویر: SINGAPORE'S NATIONAL WATER AGENCY - PUB/AFP
ڈھائی سے ساڑھے سات ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا کرنے والے ممالک
سن 2020 کے دوران ڈھائی سے ساڑھے سات ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا کرنے والے ملکوں ميں جنوبی افريقہ چلی، کينيڈا، مصر، متحدہ عرب امارات، تھائی لينڈ، يونان، سوئٹزرلينڈ اور بيلجيئم شامل ہيں۔
تصویر: Joerg Boethling/imago images
پاکستان ميں شمسی توانائی 1.03 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی
پاکستان کا شمار ان ملکوں ميں ہوتا ہے، جہاں سن 2020 کے دوران شمسی توانائی سے ايک سے ڈھائی ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔ پاکستان ميں مجموعی طور پر 1.03 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔ اس فہرست ميں اردن، روس، ارجنٹائن، ہنڈوراس، مراکش، قزاقستان، پرتگال، پولينڈ، چيک ری پبلک، ہنگری، رومانيہ، فلپائن، بلغاريہ، پورٹو ريکو اور آسٹريا بھی شامل ہيں۔
تصویر: Rohayl Varind
فہرست ميں سب سے نيچے
پيرو، الجزائر، يوکرائن، ملائيشيا اور کئی جنوبی امريکی و افريقی ممالک اس ملکوں کی فہرست کا حصہ ہيں، جہاں سالانہ ايک ٹيرا واٹ گھنٹہ سے کم بجلی پيدا ہوتی ہے۔