تحفظ ماحول کے ليے پيرس معاہدہ: پيرو ميں مذاکرات کا آغاز
1 دسمبر 2014بر اعظم جنوبی امريکا کے ملک پيرو کے دارالحکومت ليما ميں آج سے قريب 190 ممالک کے مندوبين پيرس معاہدے کی راہ ميں رکاوٹيں اور اختلافات دور کرنے کے علاوہ انفرادی سطح پر اہداف طے کرنے کے ليے ملاقات کر رہے ہيں۔ ماحول کے تحفظ کو يقينی بنانے کے ليے سست روی کے شکار اس مذاکراتی عمل کو گزشتہ دو ماہ کے دوران کافی تقويت ملی ہے۔ يہ پيش رفت صرف اسی ليے ممکن ہوئی کيونکہ کاربن کے اخراج کے ليے سر فہرست مانی جانے والی چين، امريکا اور يورپی يونين جيسی قوتوں نے ايسے وعدے کيے ہيں کہ وہ آئندہ دس تا پندرہ برس کے دوران اپنے اپنے خطوں ميں زہريلی کاربن گيسوں کے اخراج ميں کمی لائيں گے۔
ليما ميں حکام نے بتايا ہے کہ کانفرنس کے موقع پر بارہ ہزار سے زائد پوليس اہلکار شہر بھر ميں تعينات کيے جا رہے ہيں۔
ليما مذاکرات ميں سب سے اہم معاملہ معلومات کے تبادلے کا ہے۔ آئندہ برس کی ابتداء ہی ميں کئی ملکوں کو اپنے اپنے خطوں ميں کاربن گيسوں کے اخراج کی باقاعدہ مقدار واضح کرنی ہے۔ ليما مذاکرات ميں يہ طے کيا جانا ہے کہ حکومتيں اپنے اپنے اہداف مقرر کرتے ہوئے کيا معلومات فراہم کريں گی، جس کے بعد ان کا ديگر ممالک کے ڈيٹا سے موازنہ کيا جانا ہے۔
آئندہ برس پيرس ميں جس اہم معاہدے پر دستخط کيے جانا ہيں، اس پر اتفاق رائے قريب پانچ برس قبل يورپی رياست ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہيگن ميں ہوا تھا۔ ليما مذاکرات ميں تمام ممالک کی طرف سے اہداف اور حدود بيان کيے جانے کے بعد حکومتيں يہ توقع رکھتی ہيں کہ پيرس معاہدے کی راہ ميں موجود رکاوٹوں کو دور کيا جا سکے گا۔
يہ امر اہم ہے کہ بات چيت اور پيرس معاہدے کا بنيادی مقصد گلوبل وارمنگ يا زمين کے درجہ حرارت ميں اضافے کو صنعتی انقلاب کے دور کے مقابلے ميں دو ڈگری سينٹی گريڈ تک محدود رکھنا ہے۔ تاہم کئی سائنسدانوں اور متعلقہ ماہرين کا ماننا ہے کہ يہ اہداف ’غير حقيقی‘ ثابت ہو سکتے ہيں۔ عالمی سطح پر اوسط درجہ حرارت ميں پہلے ہی 0.8 ڈگری سينٹی گريڈ کا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ کاربن گيسوں کا اخراج بھی مسلسل بڑھ ہی رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں پيرو ميں پير يکم دسمبر سے شروع ہونے والی کانفرنس سے قبل کئی ماحول دوست گروپوں نے اپنے اپنے ممالک کی حکومتوں سے يہ مطالبہ کيا ہے کہ وہ اپنے اہداف بڑھائيں۔