پائلٹس کی تنظیم پالپا نے کراچی میں ہوئے طیارے کے حادثے کی بین الاقوامی ماہرین کی زیر نگرانی منصفانہ اورغیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس تحقیقاتی کمیشن میں پائلٹس کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے۔
اشتہار
پی آئی اے طیارہ کریش، ہلاک شدگان کے لواحقین پریشان
01:30
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان ائیر لائنز پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) کے سیکرٹری جنرل کیپٹن عمران ناریجو کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے طیارہ حادثات پائلٹس اور مسافروں کی جانوں کے لیے خطرات کا باعث ہیں، اس لیے ان حادثات کی وجوہات تک پہنچنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا، ''یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پی آئی اے سیفٹی سٹیندرڈز پر عمل کرنے کے پائلٹس کے مطالبے کو ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی ہے اور ہمیں سیفٹی کوڈز پر عملدرآمد کے مطالبوں پر انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔ ہم جب بھی فضائی سفر کے تقاضوں کو پورا کرنے پر اصرار کرتے ہیں تو ہمیں پریشر گروپ قرار دے کر چپ کرا نے کی کوشش کی جاتی ہے۔ محض پیسہ کمانے کے چکر میں ضروری حفاظتی اقدامات کے بغیر فلائٹس کی روانگی تشویش ناک ہے۔‘‘
کیپٹن عمران ناریجو نے بتایا کہ کراچی میں حادثے کے شکار ہونے والے جہاز کوایک ایسا پائلٹ چلا رہا تھا جس کے پاس اٹھارہ ہزار گھنٹوں تک جہاز اڑانے کا شاندار تجربہ تھا، جس کا شمار پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے سب سے سینئر اور بہترین پائلٹس میں ہوتا تھا اور اس نے جہاز اڑانے کی پروفیشنل اور جدید ترین تربیت حاصل کر رکھی تھی۔
کیپٹن ناریجو کے مطابق اس حادثے کی فوٹیج اور تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاز کے لینڈنگ گئیرز کا نہ کھلنا اور دونوں انجنوں کا فیل ہو جانا واضح طور پر تکنیکی خرابی اور مینٹیننس کی کوتاہیوں کو ظاہر کر رہا ہے۔ ''ہمیں ڈر ہے کہ اپنے من پسند لوگوں کے ذریعے کروائی جانے والی انکوائری کے نتائج درست نہیں نکلیں گے اور اس کی رپورٹ کو بھی پچھلے حادثوں کی رپورٹ کی طرح سرد خانوں میں ڈال دیا جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس تحقیقاتی عمل میں کسی پائلٹ کو شامل کیا جائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''پاکستان میں مسائل کے حل کے لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن جیسے اداروں میں ایسے پروفیشنلز کو تعینات کیا جائے جو ان اداروں کے معاملات کو سمھجتے ہوں۔ ان اداروں کو کبھی کسی بزنس مین کے حوالے کر دیا جانا یا کسی ٹیکنوکریٹ کو دے دیا جانا مناسب نہیں ۔آج کل سارے معاملات پر ایک مخصوص ادارے کے لوگ فائز کیے جا رہے ہیں، جس سے ادارے میں مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ‘‘
دنیا کی محفوظ اور غیر محفوظ ترین ایئرلائنز
دنیا کی ساٹھ بڑی ایئرلائنز میں سے محفوظ ترین کون سی ہے۔ جرمنی کے ادارے JACDEC نے 2016ء کے سیفٹی ڈیٹا کو بنیاد بنا کر ایئرلائنز کی درجہ بندی کی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ فضائی ٹریفک بھی خطرات سے بھرپور ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Day
تائیوان کی چائنا ایئرلائن ’غیرمحفوظ ترین‘
جاری کردہ لسٹ میں اس ایئر لائن کو ساٹھ بڑی ایئرلائنز کی درجہ بندی میں آخری نمبر پر رکھا گیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں تائیوان کی اس کمپنی کے جہازوں پر تین عشاریہ سات ارب انسانوں نے سفر کیا۔ درجہ بندی کے حوالے سے اس ایئرلائن پر سفر کرنے والے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Qintao
کولمبیا کی ایوانکا ایئرلائن
اس درجہ بندی کے لیے نیشنل ایئر سیفٹی کی گزشتہ تیس برسوں کا ڈیٹا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ درجہ بندی کے لیے اموات اور حادثات کا موازنہ ہوائی جہاز کے سفری کلومیٹر اور مسافروں کی تعداد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ایسی ایئر لائن، جس کا کوئی حادثہ اور اس کے نتیجے میں موت واقع نہ ہو، کو 0,001 پوائنٹس ملتے ہیں۔ ایوانکا کو 0.914 پوائنٹس ملے ہیں اور سال دو ہزار سولہ کی دوسری غیرمحفوظ ترین ایئرلائن قرار پائی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
گارودا انڈونیشیا بھی خطرہ
گارودا انڈونیشیا کے جہاز میں بھی سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ 0.770 پوائنٹس کے ساتھ یہ تیسری غیرمحفوظ ترین ایئرلائن ہے۔ 1950ء میں اس کے بنیاد رکھنے کے بعد سے اس کمپنی کے 47 جہازوں کو حادثات پیش آ چکے ہیں۔ ان میں سے 22 حادثات میں 583 مسافر ہلاک ہوئے۔
تصویر: A.Berry/AFP/GettyImages
کیا درجہ بندی غیرمنصفانہ ہے؟
جرمن ادارے کی اس درجہ بندی کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ کیوں کہ درجہ بندی میں جہازوں کے حادثات کی وجہ بننے والے عوامل جیسا کہ تکنیکی خرابی، انسانی غلطی، موسمی حالات یا دہشت گردانہ کارروائی کو ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں رکھا جاتا۔ کمپنیوں کے مطابق اس رپورٹ میں دہشت گردانہ کارروائیوں اور موسمی حالات کا ذمہ دار بھی انہیں ٹھہرایا جاتا ہے، جو ناانصافی ہے۔
تصویر: AP
خراب موسم
درجہ بندی کے ساتھ ساتھ جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق فضائی حادثات میں خراب موسم کا بہت عمل دخل ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دس فیصد حادثات برفباری، دھند اور طوفان بادو باراں کی وجہ سے ہوئے۔ تاہم آسمانی بجلی کو اتنا زیادہ خطرناک قرار نہیں دیا گیا، جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: dapd
تکنیکی خرابیاں
جدید فضائی طیارے نئی ٹیکنالوجی سے لیس ہیں لیکن دنیا میں ہونے والے بیس فیصد فضائی حادثے تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
پائلٹوں کی غلطیاں
فضائی حادثات میں ایئرلائنز کے پائلٹوں کی غلطیوں کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے۔ آج کل ہونے والے نصف حادثے پائلٹوں کی غلطی کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ انسان اور مشین کے مابین انٹرایکشن ایک پیچیدہ عمل ہے لیکن جہاز میں اگر کوئی بھی غلطی ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار پائلٹ کو سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/ROPI
ہوا میں ماسٹر
سن دوہزار نو میں چیسلی سلنبرگر نے امریکی دریائے ہڈسن میں کریش لینڈنگ کی تھی۔ جدید ہوا بازی کی دنیا میں بھی پائلٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چیسلی کی یہ کریش لینڈنگ اپنی نوعیت کی تیسری ایسی لینڈنگ تھی، جس میں تمام 155 مسافر محفوظ رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Day
سکریپ کا ڈھیر یا مرمت؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ JACDEC کی جانب سے اس ہوائی کمپنی کو زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے، جو کسی حادثے کے بعد اپنے طیارے کو مرمت کرتی ہے اور دوبارہ فعال بناتی ہے۔ اگر جہاز کو سکریپ کے طور پر رکھا جاتا ہے تو ہوائی کمپنی کو بہتر نمبر ملتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مرمت کیے جانے والے جہاز کس قدر محفوظ ہیں۔
تصویر: Reuters
سب سے بہترین ایئرلائنز
ہانگ کانگ کی کیتھے پیسیفک ایئر ویز کو دنیا کی سب سے بہتر اور محفوظ ترین ایئرلائن قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے نمبر پر ایئر نیوزی لینڈ ہے ۔ تیسری محفوظ ترین ایئرلائن کا درجہ چین کی ہینان ایئر لائنز کو دیا گیا ہے۔ چوتھے نمبر پر قطر ایئرویز ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
ایک سوال کے جواب میں پالپا کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ سول نیوی گیشن آرڈر کو پچھلے کئی سالوں سے عملا معطل کیا ہوا ہے، پائلٹس اور عملے کے کام کے اوقات کی پابندی نہیں کی جاتی اور لوگ ہراسانی کے ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ ''دو ہفتے پہلے غیر قانونی طور پر پالپا، جو کہ آئینی طور پر رجسٹرڈ ادارہ ہے اور پاکستان کے پائلٹس کاایک غیر سیاسی فورم ہے، کو بھی ڈی نوٹیفائی کرکے کام سے روک دیا گیا ہے۔ یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ سیفٹی کوڈز کی پابندی کے حوالے سے ہماری آواز کو دبایا جا سکے۔ کوئی پائلٹ اپنی اور مسافروں کی جان خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا، اس لیے ہم سیفٹی کے نظام پر سمجھوتہ نہ کرنے اور جہازوں کی دیکھ بھال کے عمل کو بہتر بنانے کی بات زور دے کر کہتے ہیں۔‘‘
آرمی ایوی ایشن میں طویل عرصہ خدمات سرانجام دینے والے برگیڈئیر(ر) فارووق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کراچی کے حادثے پر رائے دینے سے پہلے بلیک باکس سے ملنے والی معلومات کا انتظار کرنا چاہیے۔ ان کے بقول اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا کہ اگر جہاز میں کوئی تکنیکی خرابی تھی تو اس کو فلائٹ کی اجازت کیسے مل گئی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی متعدد ائیرلائنز بنانے میں مدد کرنے والی پی آئی اے کے زوال کی کہانی کافی طویل ہے، اور اس کی بربادی میں بہت سوں نے حصہ ڈالا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس حادثے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ائیر مارشل ارشد ملک کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔
دوسری طرف پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایئر مارشل ارشد ملک نے کہا ہے کہ جہاز ٹیک آف کرنے سے پہلے انجینئرز سے کلیئر کرایا جاتا ہے، جہاز ٹیکنیکل طور پر پوری طرح محفوظ تھا۔ انہوں نے کہا کہ شفاف انکوائری میں پی آئی اے اور سی اے اے کا کوئی کردار نہیں ہوگا، انکوائری میں فیکٹس اینڈ فیگرز سامنے آئیں گے۔
وفاقی حکومت نے کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کے حادثے کی تحقیقات کے لیے 4 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔کیبنیٹ سیکریٹریٹ ایوی ایشن ڈویژن کی جانب سے جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایئر کموڈور محمد عثمان غنی کریں گے، جبکہ ونگ کمانڈر ملک محمد عمران، گروپ کیپٹن توقیر اور ناصر مجید تحقیقاتی ٹیم کے ممبرز ہیں۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کمیٹی کی تشکیل کے ایک ماہ کے اندر ابتدائی تحقیقات مکمل کی جائیں گی۔
پی آئی اے کے بدقسمت طیارے کو پیش آنے والے حادثے پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے بیان میں حادثے پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ 'عیدالفطر کی چھٹیوں کے آغاز پر ہی ہولناک حادثے کے پیش آنے پر حکومت پاکستان سے تعزیت کرتے ہیں‘۔
امریکا، چین، جرمنی، کینیڈا ، بھارت ، افغانستان سمیت کئی ملکوں کی طرف سے کراچی میں طیارہ حادثے پر دکھ کا اظہار کیا گیا اور اس حادثے میں اپنے پیاروں کو کھونے والے افراد سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
ادھر پاکستان میں طیارہ گرنے پر وزیراعظم عمران خان، مسلح افواج کے سربراہان، چیف جسٹس پاکستان، اوراپوزیشن جماعتوں کے قائدین سمیت مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں کی طرف سے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا گیا۔ سابق وریز اعظم میاں نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور جمیعت علما اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے بھی اس سانحے پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے دلی تعزیت و ہمدردی کی۔
طویل پرواز کے دوران ایئر ہوسٹس اور پائلٹ کہاں سوتے ہیں؟
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہوائی سفر کے دوران آپ کو کھانا کھلا چکنے کے بعد جب روشنی دھیمی کر دی جاتی ہے تو اس وقت ایئرہوسٹس کہاں گم ہو جاتی ہیں اور طویل سفر کے دوران پائلٹس کیسے آرام کرتے ہیں؟ دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Boeing
طویل ہوتی پروازیں
دنیا بھر میں کئی ایئرلائنز نے پندرہ گھنٹوں سے بھی طویل براہ راست پروازیں شروع کر رکھی ہیں۔ کبھی آپ نے اتنے طویل دورانیے کی فلائٹ میں سفر کیا ہو تو آپ جانتے ہیں یہ کتنا تھکا دینے والا سفر ہوتا ہے۔ ایسی پروازوں کے دوران پائلٹ جہاز اپنے شریک پائلٹ کے حوالے کر کے سستاتے ہیں۔ لیکن کہاں؟
تصویر: Boeing
کپتانوں کے آرام کا خصوصی انتظام
نئے بوئنگ 777 ہوائی جہاز میں یہ ہے پائلٹ روم۔ بزنس کلاس جیسی آرام دہ نشستوں کے ساتھ واش بیسن بھی مہیا کیا گیا ہے پائلٹس یہاں آرام کر سکتے ہیں۔
تصویر: Boeing
’جیسے تابوت میں سستانا‘
یہ پرانے بوئنگ 777 کا پائلٹ روم ہے۔ اس جہاز کو اڑانے والے کئی کپتانوں کی شکایت ہے کہ پائلٹ روم میں آرام کرنا کسی تابوت میں سستانے کے مترادف ہے کیوں کہ اس میں پائلٹوں کے لیے نقل و حرکت کی گنجائش بہت کم ہے۔
تصویر: Boeing
ایئر ہوسٹس کو بھی تو آرام چاہیے
ہوائی جہاز کے مسافروں کی ضروریات مکمل کرنے کے بعد فضائی میزبانوں کو بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہوائی جہازوں میں ان کے لیے بھی خصوصی جگہ متعین ہوتی ہے، جو کہ ظاہر ہے مسافروں کی نظروں سے ہٹ کر ہوتی ہے۔
تصویر: Boeing
’خفیہ چیمبر‘
بوئنگ 777 میں ایئر ہوسٹس کے لیے بنائے گئے خصوصی خفیہ چیمبرز طیارے کے آخر میں ہیں۔ ان تک رسائی کا راستہ اتنا تنگ ہے کہ فضائی میزبانوں کو سنبھل کر یہاں پہنچنا پڑتا ہے۔ کیبن میں چھ تا دس بستر نصب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Boeing
ڈریم لائنر بوئنگ 787 کا کیبن
بوئنگ 777 کی نسبت ڈریم لائنر میں ایئر ہوسٹس کے لیے کیبن کشادہ اور آرام دہ ہیں۔ اس کیبن میں نصب ہر دو بستر بستروں کے مابین پردہ بھی ہے اور روشنی مدھم یا تیز بھی کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ کیبن ساؤنڈ پروف بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
لیکن کھڑکی دستیاب نہیں
ہوائی جہاز کی آرائش کرتے وقت پہلی ترجیح مسافروں کو دی جاتی ہے۔ فضائی میزبانوں کے لیے مختص نئے طیاروں میں دیگر سہولیات تو بہتر کی گئی ہیں لیکن انہیں جہاز سے باہر جھانکنے کے لیے کوئی کھڑکی دستیاب نہیں۔
تصویر: Getty Images/McGrath
بوئنگ 787 پائلٹ کیبن
اس جہاز میں ایئر ہوسٹس اور پائلٹوں کے لیے بنائے گئے کیبنوں میں قریب ایک جیسی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ فضائی میزبانوں کے لیے جہاز کے آخری حصے اور پائلٹس کے لیے اگلے حصے میں کیبن بنائے گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/David McNew
8 تصاویر1 | 8
سوشل میڈیا پر حادثے کا شکار ہونے والے پائلٹ کے بارے میں بھی اظہار خیال جاری ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور کرکٹ تبصرہ نگار رمیز راجہ نے حادثے کا شکار ہونے والے پی آئی اے کے طیارے کے پائلٹ کیپٹن سجاد گل کی آخری آڈیو ریلیز گفتگو پر کہا ہے کہ یہ ناقابل یقین ہے۔ اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں ماضی کے اوپننگ بیٹسمین نے کہا کہ بدنصیب طیارے کے پائلٹ کیپٹن سجاد گل کے کنٹرول ٹاور سے گفتگو کے دوران ان کی آواز پرسکون اور مکمل قابو میں تھی۔انہوں نے مزید کہا، ''یہ تمام بات چیت کریش سے چند لمحے پہلے کی گئی تھی، جس، میں کہیں گھبراہٹ نہ تھی۔ یہ بڑی جواں مردی پر مبنی موت ہے، جسے انہوں نے باوقار انداز میں گلے لگایا۔‘‘
حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کی اس خوش قسمت ائیر ہوسٹس بھی سامنے آگئی ہیں جنہیں پرواز سے کچھ دیر پہلے ڈیوٹی روسٹر تبدیل کر کے حادثے کے شکار ہونے والے جہاز پر سوار ہونے سے روک دیا گیا تھا اور ان کی جگہ ائیر ہوسٹس انعم مقصود کو طیارے میں بھیجا گیا تھا۔
واضح رہے کہ لاہور سے کراچی جانے والی قومی فضائی ادارے پی آئی اے کی پرواز کراچی میں لینڈنگ سے 30 سیکنڈ قبل حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔ پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 نے جمعے کے روز دوپہر 2 بجکر 40 منٹ پر جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈ کرنا تھا۔
طیارہ لینڈنگ اپروچ پر تھا کہ کراچی ایئر پورٹ کے جناح ٹرمینل سے محض چند کلومیٹر پہلے ملیر ماڈل کالونی کے قریب جناح گارڈن کی آبادی پر گر گیا۔ کراچی میں طیارے کے حادثے میں ہلاکتوں کی تعداد ستانوے ہو چکی ہے، جبکہ دو افراد معجزانہ طور پر محفوظ رہے ہیں۔
ان میں ایک نوجوان محمد زبیر اور دوسرے بنک آف پنجاب کے سربراہ ظفر مسعود شامل ہیں۔ جائے حادثہ پر ملبہ اٹھانے کا کام اب بھی جاری ہے۔ جبکہ اس حادثے میں ہلاک ہونے والے انیس افراد کی شناخت ہو چکی ہے۔ میتوں کو ان کے لواحقین کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ متاثرہ علاقے میں اس حادثے کی زد میں آنے والے دو درجن سے زائد مکانوں کو بھی کلئیر کیا جا چکا ہے۔
ایئر بس A380 اب مزید نہیں بنائے جائیں گے
پندرہ اکتوبر سن دو سات کو ایئر بس نے پہلے اے تین اسی ہوائی جہاز فراہم کیے تھے۔ اُس وقت اسے انقلاب آفرین مسافر بردار طیارہ قرار دیا گیا تھا۔ اب ایئر بس نے اس کی پیداوار بند کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Matthews
فضا میں اڑتا ہوا ایک انتہائی بڑا طیارہ
جب یہ سپر جمبو طیارہ متعارف کرایا گیا تو اس کی حریف طیارہ ساز کمپنیوں میں پریشانی لہر دوڑ گئی تھی۔ تقریباً تہتر میٹر لمبے اس ہوائی جہاز کے پروں کا پھیلاؤ تقریباً اسی فٹ ہے۔ جب کہ اس کی اونچائی چوبیس میٹر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Matthews
اولین خریدار
سنگا پور ایئر لائن اس اے 380 کی پہلی خریدار کمپنی تھی۔ اس تصویر میں سنگاپور کمپنی کے اہلکار تولوز میں خریداری کی دستاویز پر دستخط کے بعد کھڑے ہیں۔ اس کمپنی کو یہ طیارہ پندرہ اکتوبر سن 2007 کو فراہم کیا گیا تھا۔ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ایک وقت میں زیادہ مسافروں کی روانگی منفعت بخش رہے گی لیکن بارہ برس بعد ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔
تصویر: Airbus
ساڑھے آٹھ سو مسافروں کی گنجائش
سپر جمبر اے 380 میں ایک وقت میں کم از کم پانچ سو مسافروں کو بٹھانے کی سہولت دستیاب ہے۔ یہ تعداد بوئنگ طیارہ ساز کمپنی کے بوئنگ 747 سے ایک سو زائد تھی۔ اے 380 میں تین مختلف درجے تھے اور اگر ان کو ختم کر کے ایک مکمل اکانومی کلاس ہوائی جہاز بنا دیا جاتا تو اس میں ساڑھے آٹھ سو مسافر ایک پرواز کے لیے بیٹھ سکتے تھے۔
تصویر: AP
پرسکون پرواز
اے 380 کشادہ اور بڑی کھڑکیوں والا ہوائی جہاز ہے۔ اس کی پرواز کو مسافروں نے آرام دہ قرار دیا ہے۔ اس ہوائی جہاز کی چھت بلند اور انجن بھی کم شور والے ہیں۔ بعض ہوائی کمپنیوں نے اس ہوائی جہاز کے اندر ڈیوٹی فری شاپ، دوکانیں اور بارز بھی نصب کروائے تھے۔
تصویر: Emirates Airline
مسافروں میں کمی
یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ اے 380 طیارے کی فروخت کے حوالے سے جو چیر سب سے اہم سمجھی جا رہی تھی وہی اس کے زوال کا باعث بن گئی۔ اس کی ہر پرواز میں کئی نشستیں خالی رہنے لگیں۔ ہوائی کمپنیوں کے مطابق ایک ہی پرواز کے لیے بہت ساری نشستوں کی فروخت بھی مشکل امر تھا اور اس باعث اے 380 کئی خالی سیٹوں کے ساتھ اڑتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
اے 380 کی پیداوار بند کرنے کا فیصلہ
ایئر بس نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر اب اسی سپر جمبو طیارے کی پروڈکشن بند کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ سن 2021 کے بعد یہ طیارہ مزید نہیں تیار کیا جائے گا۔ اس وقت اس کے گاہک بھی موجود نہیں ہیں۔ تقریباً دو برس بعد یہ طیارہ ماضی کا حصہ بن جائے گا۔